خاموش تماشائی نہ بنیں

پون صدی سے جاری صہیونی واردات آخری مراحل میں ہے. یہ کب شروع ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ اسرائیل کیسے پھیلتا چلا گیا اور فلسطین کیسے نقشے سے سمٹتا گیا؟ مظالم اور بربریت کی کیا کیا داستان رقم ہوئیں. ان پر اتنا لکھا گیا کہ بچہ بچہ اس سے واقف ہے سو موجودہ منظر نامہ کیا ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے.عام شخص یہ سمجھتا ہے کہ حماس کے حملہ کے بعد اسرائیل نے اپنے پرانے بے تعبیر خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا نادر موقع سمجھتے ہوئے فلسطینیوں کو مکمل طور پر کچلنے کا تہیہ کیا ہے. یوں وحشی سوچ رکھنے والا ملک بربریت کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔
مشرق وسطی کو تبدیل کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے والی صہیونی طاقت نے فلسطین پر حالیہ مظالم سے پر پھیلانے شروع کر دیے ہیں. دنیا میں پھیلے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان صرف اپنے کنویں میں جھانک رہے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلمان حکمرانوں کا یہی رویہ رہا تو مٹھی بھر یہودیوں نے باری باری سب کو پھینٹی لگانی ہے.امریکہ کے آشیر باد سے اسرائیل نے فلسطین، لبنان، شام پر پنجے گاڑھنے کی کوششیں کی. ایران قدرے طاقتور ہے اگر اسرائیل یوں ہی بے لگام رہا تو جلد ان کا کھلم کھلا سامنا متوقع ہے۔
پاکستان کے عوام سڑکیں گرم کرتے ہیں لیکن حکمران اپنے معاشی مسائل اور امریکی ظاہری و مخفی دباؤ کی وجہ سے چند تقریروں سے آگے نہیں بڑھتے. عرب ممالک ویسے ہی اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے لیے باولے ہو رہے ہوتے ہیں. یورپی ممالک جو کسی کو چھینک آنے پر بھی انسانی حقوق کا جھنڈا بلند کرتے ہیں. اسرائیل کے مظالم پر گونگے ہو جاتے ہیں. دیگر اسلامی ممالک بھی پاکستان کی طرح عالمی مالیاتی اداروں،امریکہ اور اپنی کمزور سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے اونچا سانس تک نہیں لیتے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جو اسرائیل کو بگڑے ہوئے بھینسے کی طرح مزید دندنانے دے رہی ہیں.یاد رکھیں کہ اسرائیل اپنے مزموم عزائم کے لیے موجودہ صورتحال پر مزید جاریت دکھائے گا اور اس سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہے گا. جس طرح کے حالات بن رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ دنیا ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آجائے. اگر یہ جنگ ایران کے بارڈر پر آتی ہے تو پاکستان اور افغانستان کیسے اسکی لپیٹ میں نہیں آئے گا۔
انڈیا اور چائنہ کیسے اس الاو سے دور ہو گا.مذہبی اور جغرافیائی لحاظ سے باقی ممالک بھی چاہتے نہ چاہتے متاثر ہونگے. دور بیٹھے ممالک اگر یہ سوچتے ہیں کہ وہ اس آگ کی لپیٹ میں نہیں آئیں گے تو یہ ان کی بھول ہے.اب جب بھی اس طرح کےموضوعات پر بات ہو تو فورا پوچھا جاتا ہے کہ آپ بتائیں کیا حل ہے؟ کیا ہم حملہ کر دیں؟ کیا جذبات سے مسئلہ حل ہوگا؟.پہلی بات یہ کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ جنگ مسائل کا حل نہیں انکی یہ سوچ صرف اس وقت تک قابل غور اور درست ہے جب تک کچھ اخلاقی اور انسانی حقوق کا پاس رکھا جائے اگر ایسا نہیں ہے تو جنگ لازم ہے اور ان حالات میں جنگوں سے قومیں بنتی ہیں، اس کے لیے اپ انسانی تاریخ کا بغور مطالعہ فرمائیں اپ کو بیسیوں ثبوت ملیں گے۔
عوام دنیا میں ہونے والے مظالم پر آنسو بھی بہاتے ہیں، احتجاج بھی کرتے ہیں لیکن اس سے اتنا ہی فرق پڑتا ہے جتنا کہ اب تک پڑا ہے.ظلم کرنے والے جنگلی سانڈ کی طرح ہر طرف تباہی پھیلاتے جا رہے ہیں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کا دسواں حصہ بھی اگر ایک اینٹ اٹھا کر اسرائیل کے بارڈر کی طرف چل نکلے تو اس کی ساری ٹیکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی لیکن یہ کام عوام کا نہیں.مسلمان حکمرانوں کا ہے مگر وہ اپنی آسائش، معاشی مسائل، سیاسی نوک جھونک اور مفاد پرستی کے طلسم میں جکڑے ہوئے ہیں. امریکہ اور یورپی ممالک کھلے عام ایک غاصب اور جابر ملک کے ساتھ کھڑا ہونے اور اسے جنگی سہولیات دینے کا اعلان کرتے ہیں لیکن مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سوائے جنگ رکوانے کی التجا کے کوئی بھی عملی اقدام اٹھانے سے گریزاں ہیں۔
جب آپ میں اتنی سی جرات بھی باقی نہیں رہی تو ایک آخری کاری وار ہے جس سے آپ اسرائیل کو گھٹنوں پر لا سکتے ہیں.اسرائیل کی ساری اجارہ داری معاشی طاقت کی وجہ سے ہے. اس کی یہ طاقت ختم کریں اور دیکھیں کہ کیسے وہ ہٹ دھرمی کی بجائے جی حضوری کرتا ہے .صرف مسلم ممالک اس کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں یہاں ہرگز اس کمپین کی طرف اشارہ نہیں جو پاکستان میں ہر چوتھے دن واٹس ایپ پر چلتی ہے اور میکڈونلڈ پر فیملی کے ساتھ بیٹھے برگر کھاتے لوگ بھی میسج فارورڈ کرتے ہیں کہ یہودیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔
یہ بائیکاٹ جزوی طور پر شاید کچھ فرق ڈالے لیکن اس کا کلی حاصل صفر ہے. حکومتی سطح پر پابندی لگنی چاہیے اور سختی سے اس پر عمل ہو. اس میں اگر تھوڑی کوشش کر کے چائنہ اور روس کو شامل کیا جائے اور کوئی خاص تجارتی معاہدہ طے پا جائے تو چند ماہ میں یہودیوں کو جان کے لالے پڑے ہوں گے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button