فہیم بھائی موت نے ہرا دیا
بچپن کا دور اور یادیں ساری عمر انسان کا پیچھا کرتی ہیں کبھی کبھار جب پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جائے توگذرے دنوں کی حسین یادیں دنیا جہاں سے غافل کردیتی ہیں اور انسان خیالوں ہی خیالوں میں واپس اسی دور میں پہنچ جاتا ہے سکول دور کے کلاس فیلو،گلی محلے کے دوست اور ہم عمر رشتہ دار بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ انسان کو جوان رکھنے کا ایک زریعہ بھی ہیں اور جب ان دوستوں میں سے کوئی اچانک دنیا سے چلا جائے تودل دکھی ہوجاتاجمعہ کے رات تقریبا 10بجے مجھے میرے گاؤں 36ڈی این بی سے میرے ایک عزیز شکیل نے ٹیلی فون کرکے بتایا کہ فہیم بھائی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور ہفتہ کی صبح10بجے اسکا جنازہ ہے پوچھا کیا ہوا تو پتا چلا کہ وہ اپنی زرعی زمین سے موٹرسائیکل پر واپس گھر آرہا تھا کہ چیمہ چوک پر ایک تیز رفتارموٹر سائیکل نے ٹکر ماردی ایکسیڈنٹ اتنا شدید تھا کہ فہیم کے سر میں چوٹیں آئیں اور وہ اللہ کو پیارا ہوگیاشکیل نے فون بند کیا تویادوں کا طوفان مجھے ماضی میں لے گیا۔
1989کی بات ہے جب مجھے کچھ عرصہ کے لیے اپنے گاؤں جانا پڑا اس سے پہلے ساہیوال جو میرا شہرہے جہاں بچپن اور جوانی گذری اسی شہر کے دو پرائمری سکولوں میں پڑھا ایک کوٹ خادم علیشاہ کی نہرکے پاس تھا جہاں جاتے ہوئے زمین پر بیٹھنے کے لیے کپڑا ساتھ لیکر جاتے تھے اور یہ اکثر کھاد والی بوری ہوتی تھی ہمارا یہ سکول دھوپ اور چھاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ بھی تبدیل کرتا رہتا تھا درخت کے نیچے بنا ہوا یہ سکول جہاں چھاؤں جاتی اسی طرف کو ماسٹر صاحب اپنی کرسی کرلیتے تو ہم بھی اپنی بوری ادھر کو سرکا لیتے پھر میں تیسری کلاس میں ایم سی بوائز پرائمری سکول گوجر احاطہ چلا گیاجہاں پہلی بار لکڑ کے بنچوں پر بیٹھ کر پڑھنا شروع کیا اس سکول میں ماسٹر ریاض صاحب اور ماسٹر رمضا ن صاحب نے ایسا خوبصورت پڑھایا کہ پھر مجھے کبھی اردو کی تیاری کی ضرورت نہیں پڑی۔
ابھی میں چوتھی کلاس میں تھا تو ابو جان اچانک اللہ کو پیارے ہوگئے وہ بھی ایک سکول ٹیچر تھے کبھی کبھی وہ مجھے چھوٹی عمر میں اپنے سائیکل پربٹھا کر اپنے سکول بجلی گھر اور عارف والا روڈ پر ساتھ لے جاتے تھے اور میں سارا دن خوب کھیلتامیں سمجھتا تھا کہ ابو جان ہم تین بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے زیادہ پیار مجھے ہی کرتے ہیں لیکن بعد میں احساس ہوا کہ وہ ہم سب سے ہی بہت پیار کرتے تھے اور انکا پیار آج تقریبا 45 سال کی عمر میں بھی ویسا ہی محسوس کرتاہوں آج تک کوئی دن انکی یاد کے بغیر نہیں گذراپرائمری کے بعد چھٹی کلاس میں گورنمنٹ بٹالہ مسلم ہائی سکول میں داخلہ لے لیاجہاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ بیڈمنٹن بھی شروع کردی پی ٹی ماسٹر خادم صاحب اور ہماری کلاس کے انچارج پرویز صاحب نے ہمارے دلوں پرایسے نقوش چھوڑے جو آج بھی واضح نظر آتے ہیں۔
اسی سکول میں نوویں کلاس میں مجھے کہا گیا کہ ایک سال اور کھیلوں پھر دسویں کلاس میں چلے جانا تب تک نئے کھلاڑی تیار ہوجائیں گے لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ ایک سال ضائع نہیں کرنا اپنی امی جان اور بڑے بھائی سہیل اکبر سے مشورہ کیا اپنا سامان بیگ میں ڈالا بس میں بیٹھا اور 36چک پہنچ گیا جہاں ایک خوبصورت زندگی کا آغاز ہوگیا اس گاؤں سے رشتہ ہوش سنبھالنے سے پہلے کا تھا جب بھی سکول کی چھٹیاں ہوتی تو ہم لوگ گاؤ ں چلے جاتے تھے اس وقت خط وکتابت کا دور ہوتا تھا ماموں ارشاد اور ماموں اعجاز عرف موتو کو چھٹیوں سے پہلے خط لکھ دیتے کہ فلاں تاریخ کو ہم پہنچیں گے۔
ساہیوال ریلوے اسٹیشن سے اباسین ایکسپریس پراپنی والدہ کا ہاتھ تھامیں بیٹھ جاتے اور ڈیرہ نواب صاحب شام تک پہنچ جاتے وہاں سے ہیڈ راجکان کی طرف جانے والی ایک ہی لاری ہوتی تھی جسکا ڈرائیور سرخ داڑھی والا شخص ہوتا تھا وہ شام کو وہاں سے نکلتی اور جرنیلی سڑک پر دھیرے دھیرے مسافروں کو اتارتے اور چڑھاتے ہوئے رات گئے گاؤں کے سٹاپ پر پہنچتی تو وہاں پر پہلے سے ماموں ارشاد اور ماموں اعجاز ہاتھوں میں ٹارچ پکڑے انتظار میں ہوتے جنہیں دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہتی اور ہم پکڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے گھر کا راستہ لیتے اور پھر اگلے دن سے دوستوں کے ساتھ کھیل کود شروع ہوجاتی اور چھٹیاں گذرنے کا احساس تک نہ ہوتا1989میں جب میں پڑھنے کے لیے گاؤں آیا تو بچپن کے دوست بھی لڑکپن کی حدود سے نکل کر جوانی کی دہلیز پر پاؤں رکھ چکے تھے۔
یہ گاؤں چونکہ میری امی جان کا گاؤں تھا اس نسبت سے ہر گھر سے مجھے نانا،نانی،ماموں اور خالاؤں کا پیار ملا گاؤں میں کوئی گھرایسا نہیں تھا جہاں میں بلاجھجک نہ جاسکوں اور پھر گورنمنٹ ہائی سکول 36ڈی این بی میں میٹرک میں داخل ہوگیا پڑھنے کے ساتھ ساتھ بیڈمنٹن بھی کھیلی اور اپنے اس سکول کو بھی جتوادیا اسی سکول میں بائی رشید،غضنفر عرف گگا،ڈاکٹر عرفان،مبشر پپو،رمضان جانی،نصراللہ،زاہد پپو،منصب باجوہ عرف منشی،ڈاکٹر انور اوربوٹا چھٹانکی سمیت بہت سے دوست بنے اسی سکول کے گراؤنڈ میں ندیم بھائی بچوں کو لیکر کرکٹ کھلاتے جن کی کوششوں سے گاؤں کی کرکٹ ٹیم آج بھی علاقے میں سرفہرست ہے لیکن ندیم بھائی جلد اللہ کو پیارے ہوگئے ان سے بہت دوستی تھی کرکٹ کھیلنے کے علاوہ انکے گھر میں گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے اور چاٹی کی لسی کا مزہ لیتے تھے وہیں پر انکے چھوٹے بھائی فہیم اور نعیم سے ایسی دوستی شروع ہوئی جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہوتی چلی گئی۔
میں نے 1989میں میٹرک پاس کرلیا اور پھر واپس ساہیوال آکر گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیالیکن گاؤں کی یادوں نے پیچھا نہ چھوڑا اسی دوران بہت ہی پیارے دوست اور ماموں اعجاز ایک ٹریکٹر حادثہ میں انتقال کرگئے یہ ایسا دکھ تھا جو آج بھی ہرا ہے ابھی یہ صدمہ کم نہیں ہوا تھا کہ بڑے ماموں چوہدری ارشاد بھی اللہ کو پیارے ہو گئے وہ صرف نام کے چوہدری نہیں تھے بلکہ پورے علاقے میں زندہ دل،سخی اور ہر دلعزیز ہونے کے ساتھ ساتھ بہالپور ضلع کے چوہدری تھے انکے ہاتھوں کے بنے ہوئے چیئرمین،ایم پی اے اور ایم این اے آج بھی ملکی سطح پر سیاست میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں انکی موت نے پورے علاقے کو رلا دیاآج بھی انکا تذکرہ ہوتا ہے تو گاؤں سوگوار سا لگتا ہے یہ گاؤں زندہ دل لوگوں کا گاؤں ہے جہاں ڈیرے داریاں اب بھی چلتی ہیں لوگ سارا سار ا دن گپیں لگاتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے ہیں بیٹھ کر تاش،لڈو اور اس طرح کی گیموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنے دکھوں کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ابھی یہ دکھ کم نہیں ہوئے تھے کہ فہیم بھی چلا گیا اسکی موت نے ایک بار پھر پورے علاقے کو ہلا کررکھ دیاایسا خوبصور جوان جو ہر کسی کے کام آنا اپنا فرض سمجھتا تھا اسکا ذاتی کام بے شک رہ جائے لیکن دوسروں کی خدمت کرکے اسے جو سکون ملتا تھا وہ اسکے چہرے سے عیاں ہوتا تھا میں جب بھی گاؤں جاتا تو سب سے پہلے اسی سے ملنے اسکے گھر جاتا وہ مجھے دیکھتے ہی پہلاکام جوکرتا وہ لسی منگوانے کا کرتا اسکے بعد پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوتا اگر اس وقت اسکے کوئی اور دوست بھی موجود ہوتے تو اسے کہتے کہ چائے یا روٹی کا پوچھیں تو وہ آگے سے ہنس کرکہتا وہ بعدمیں پہلے اسکی پسندیدہ چیز لسی ہی چلے گی جس دن فہیم سے ملاقات نہ ہوتی تو عجیب سے بے چینی لگی رہتی وہ زندہ دل انسان تھا آج تک کسی سے ہار نہیں مانی دلیری سے زندہ رہا لیکن موت نے اسے ہرا دیا اللہ تعالی فہیم بھائی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین) ۔