قتیبہ بن مسلم فاتح چین

اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کی حکومت، 705ء تا715ء کو بنی اُمیہ کا کامیاب ترین خلیفہ شمار کیا جاتا ہے۔تاریخ اسلامی میں ولید بن عبدالملک کے دور کو اسلامی فتوحات کا دور بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے دور میں ترکستان، سپین، سندھ اور چین سے لے کر وسط یورپ تک کے علاقے فتح ہوئے۔ ان فتوحات کا سہرانامور مسلمان جرنیلوں، قتیبہ بن مسلم، موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم اور مسلم بن عبدالملک تک جاتا ہے۔ موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد۔ محمد بن قاسم کا ذکر ہم علیحدہ مضمامین میں کر چکے ہیں۔ اس مضمون میں فاتح چین قتیبہ بن مسلم کا کر رہے ہیں۔ قتیبہ بن مسلم ایک مصری سردار تھا۔ اس کو حجاج نے یذید کی جگہ خراساں کا گورنر مقرر کیا تھا۔ قتیبہ بن مسلم نے نہ صرف چین کو سرنگوں کیا بلکہ ترکستان، بخارا،سمر قند، وغیرہ بھی فتح کیے۔قتیبہ بڑا بہادر اور تجربہ کار جرنیل تھا۔ اس نے پہلے خراساں اورآس پاس کے باغیوں کی سرکوبی کی۔پھر ترکستان پر لشکر کشی کی۔ ترکستان کو اُس زمانے میں ماورالنہر کہتے تھے۔ یہ ملک مختلف حکمرانوں میں بٹا ہوا تھا۔
یہ حکمران آئے دن ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ ان کی اس باہمی منا قشت سے قتیبہ نے فائدہ اُٹھایا۔ دریائے جیحوں کو عبور کر کے قتیبہ آگے بڑھا تو سغانیاں کا حکمران تحفے تحائف لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور اطاعت قبول کی۔ اس کی دیکھا دیکھی شومان اور کفیان کی ہمسایہ ریاستوں نے بھی خراج اداکرنے کے وعدے پر صلح کر لی۔ اس کے بعد قتیبہ فوج کی کمان اپنے نائبوں نصر اور صالح کے حوالے کر خود دارالسلطنت میں واپس آگیا۔ اس کی عدم موجودگی میں صالح نے کاشاں اور فرغانہ وغیرہ کئی شہر فتح کر لیے۔ حجاج کو قتیبہ کے لوٹنے کا حال معلوم ہوا تو جھٹ ایک تحدید آمیز خط لکھا کہ’’ لشکر چھوڑ کر چلے آنا اصول سپہ سالاری کے منافہ ہے۔ سپہ سالار کہلانے کا وہ آدمی مستحق ہے، جو پیشقدمی کرتے وقت سب سے آگے اور واپسی پر سب پیچھے رہے‘‘۔ اس خط کو پڑھتے ہی قتیبہ پھر اپنے لشکر سے جا ملا۔ اس کے بعد بادغیس کے ترک حکمران کے ساتھ صلح ہو گئی۔ اب قتیبہ نے شہر بیکند پر لشکر کشی کی۔ وہاں کا رائیس ایک بہت بڑی جمعیت کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلا۔
دو ماہ تک جنگ ہوئی۔ بلا آخر مسلمانوں کو فتح ہوئی اور وہ قلعہ بند ہو گئے۔ قتیبہ نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ جب قتیبہ کی فوج نے شہر پناہ کو توڑنا شروع کیا تو انہوں نے شکست قبول کر لی۔ قتیبہ اپنے نائب مقرر کر کے واپس ہوا تو انہوں نے دوبارہ بغاوت کر دی۔ وہاں موجود سارے مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ اس پر اسلامی لشکر واپس پلٹا تو وہ دوبارہ قلعہ بند ہو گئے۔ قتیبہ شہر پناہ مسمار کر کے اندر داخل ہوا اور مجرموں کا سخت سزائیں دیں۔ اس فتح سے بے شمار مال غنیمت ہاتھ آیا۔ اس کے بعد نو مشکت اور امثلہ کو فتح کر کے اسلامی لشکر واپس لوٹا تو راستے میں شہنشاہ چین کا بھتیجا دو لاکھ لشکر جرار کے ساتھ مقابلہ کو آیا۔ باوجود تعداد کی کسی کمی کے قتیبہ نے اسے شکست فاش دی۔ اسی جنگ میں باسغیس کے حکمران نیذک نے بھی مسلمانوں کا ساتھ دیا اور جوانمردی کے جوہر دکھائے۔ اس کے چند ماہ بعد بخارا پر فوج کشی کی مگر فتح حاصل نہیں ہوئی۔ حجاج کو اس کا پتہ چلا تو بخارا کا نقشہ طلب کیا۔ اس کے بعد ہدایات دیں کہ فلاں فلاں اطراف سے چڑھائی کی جائے۔
قتیبہ نے ان ہدایات کے مطابق اگلے سال لشکر کشی کی۔ اور بڑھ کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔ چند روز بعد بخارا والوں کی مدد کے لیے سغدیوں اور ترکوں کی ایک متحدہ فوج بھی بخارا والوں کی مدد کو آگئی۔ ان افواج کو دیکھ کر قلعہ بند لوگ باہر نکل کر میدان میں آگئے۔ اس طرح ایک طرف اہل بخارا لالشکر، دوسرہ طرف ترکوں اور سغدیوں کی فوج جمع ہو گئی۔ مسلمان فوج دونوں کے درمیان آ گئی۔بڑی خون زیز جنگ ہوئی۔ اسلامی فوج کا ایک دستہ شکست کھا کر پیچھے ہٹا تو عرب عورتوں نے بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو عبرت دلائی اور گھوڑوں کو ڈنڈے مار مار کر واپس میدان جنگ کی طرف دکھیل دیا۔ آخرمسلمان سنبھلے اور اس زور سے حمہ آور ہوئے کہ غنیم کے پائوں اکھڑ گئے اور بخارا مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ اس عظیم فتح سے آس پاس کے امراء خوفزدہ ہوگئے ۔ سب نے آکر اطاعت قبول کر لی۔ قتیبہ نے بخارا کے بعد سمر قند پر لشکر کشی کی۔ ابتدا میں سغدیوں یعنی اہل سمر قند کے تعلوقات مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تھے۔ لیکن ترکستان کی بغاوت میں انہوں نے بد عہدی کر کے دشمنوں کی مدد کی تھی۔
اس لیے قتیبہ ان سے ناخوش تھا۔ قتیبہ ان کو بد عہدی کا مزاچکھانا چاہتا تھا۔ اس حملے میں ترکستان کی مختلف ماتحت ریاستوں نے بھی مسلمانوں کی امداد کے لیے فوجی دستے روانہ کیے۔قتیبہ جب سمر قند پہنچے تو سغدی تاب مفاوست نہ لاکر قلعہ بند ہو گئے۔ مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرے نے طول کھینچا تو اہل سمر قند نے گرد و نواح کے شہزادوں سے مدد طلب کی۔ ان کو خوف دلایا کہ آج اگر عربوں نے ہمیں شکست دے دی تو کل آپ کا نمبر آئے گا۔اس لیے ہماری خاطر نہیں اپنی حفاظت کے لیے آگے آئو۔ اس درخواست پر ایک متحدہ لشکر اہل بخارا کی مدد کو چل پڑا۔قتیبہ کو اس لشکر کی خبر پہنچی تو اپنے بھائی صالح کو ایک دستہ دے کر ان کو روکنے کے لیے بھیجا۔ صالح نے اچانک حملہ کر کے ساری متحدہ فوج کو تہس نہس کر دیا۔بہت سا مال غنیمت لے کر سمرقند واپس آ گیا۔ اس شکست کی خبر سن کو سغدیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ انہوں نے صلح کی درخواست کی جو قتیبہ نے منظور کر لی۔ مسلمان شہر میں فاتحانہ داخل ہوئے۔ وہاں ایک مسجد تعمیر کی ۔ مسجد میں نماز ادا کی۔ سمر قند میں ان دنوں بت پرستی عام تھی۔ یہ مشہور کر دیا گیا تھا کہ جو بھی ان بتوں کو نقصان پہنچائے گا وہ تباہ بر باد ہو جائے گا۔ اس پر قتیبہ نے ان کا یہ وہم ختم کرنے کے لیے تمام بتوں کو پاش پاش کر دیا۔ جب اس عمل سے مسلمانوں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا تو بہت سے لوگوں نے بت پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا۔ اس طرح فتح مکہ کے موقع پر رسولؐ اللہ نے خانہ کعبہ میں جو تین سوساٹھ بت پاش پاس کیے تو محمود غزنوی نے ہندوستان سومنات کے بت پاش پاش کیے تھے اور اسی طرح قتبیبہ نے بھی بت پاش پاش کر سنت نبویؐ پر عمل کیا۔ اب ان شاء اللہ غزوہ ہند جب برپاہ ہو گا تو کوئی خوش قسمت مسلمان جرنیل ہندوستان کے بتوں کو توڑ کر اسلامی سلطنت قائم کرے گا۔بخارا کی فتح کے بعد قتیبہ ، شاش اور فرغانہ کی طرف بڑھا اور انہیں فتح کیا۔ پھرخجستان پر دھاوا بول دیا۔
خجستان والوں نے بڑھی بہادری سے مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی اورا طاعت قبول کر لی۔ اس کے بعد چین کی باری تھی۔ خاقان چین نے معرکہ سمرقند میں اپنے بیٹے کو ایک ذبردست فوج کے ساتھ سغدیوں کی امداد کی تھی۔ قتیبہ نے اس کا بدلہ خاقان چین سے لینا تھا۔ چنانچہ قتیبہ چین کی حدود تک پہنچ گیا۔عبیرہ بن کلابی کی سرکردگی میں ایک وفد خاقان چین کے پاس بیھجا۔ وفد نے خاقان کے دربار میں پہنچ کر کہا۔’’ ہمارے سردار نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک چین کی سر زمین کو اپنے پائوں تلے نہیں روندے گا اور خراج وصول کرے گا اس وقت تک واپس نہیں جائے گا‘‘ اس پر خاقان چین پہلے تو بڑا تلملیا اور کہا کی میرے مقابلہ میں تمھاری حقیقت ہی کیا ہے۔ آن واحد میں ساری مسلمان فوج کو ختم کر دوں گا۔ جب دیکھا کہ یہ دھمکیاں مسلمانوں خائف نہیں کر سکیں اور جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں پورا کر کے رہیں گے۔ تو جذیہ دینا قبول کر کے صلح کر لی۔ایک روایت کے مطابق جب خراج کی رقم قتیبہ کے سامنے رکھی گئی تو اس نے کہا کہ میں نے دو قسمیں کھائیں تھیں ایک خراج وصول کرنا اور دوسرا چین کی سرزمین کو روندنا بھی تھا۔پہلی شرط تو پوری ہو گئی مگر دوسری شرط پوری کرنے کے لیے مجھے چین پر حملہ کرنا ہے۔فریقین خون زیزی سے بچنا چاہتے تھے۔ اس لیے بحث و تمیص کے بعد یہ تدبیر نکالی گئی کہ چین کی خاک سے بھری ہوئی ایک بوری قتیبہ کے سامنے لا کر بچھائی گئی ، جسے پامال کر کے وہ اپنی قسم پوری کر لے۔ پھر ایسا ہی کیا گیا۔یہ ہے چین کو سرنگوں کرنے والے مسلمان جرنیل قتیبہ کی بہادری کی داستان۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button