کچھ لوگ بھیس بدل کر بھی آئیں گے

کچھ زیادہ عرصہ قبل کی بات نہیں یہی کوئی دو دہائیوں پہلے ہر گھر میں ایک بزرگ تایا چچا،ماما یا پھپھا کی شکل میں ایک بزرگ ہوا کرتا تھا جو شب ڈھلتے ہی گھر کے تمام بچوں کو اپنی چارپائی کے اردگرد جمع کر لیتے اور’’باتیں‘‘سنانا شروع کردیتے۔مجھے یاد ہے میرے ایم بچپن میں میرے پھوپھا جی نے ایک بات سنائی کہ ایک درخت پر ایک چڑیااور چڑا بیٹھے ہوئے تھے جو کہ اپنے مستقبل کے بارے میں پلان بنا رہے تھے کہ جب ہمارے بچے ہو جائیں گے تو ہم ان کے مستقبل کی خاطر یہ علاقہ چھوڑ کر کسی ایسے علاقے میں چلے جائیں گے جہاں خوشحالی ہو،سبزہ ہو،اور خوراک کی کوئی فکر نہ ہو۔ایسے میں وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نہائت ہی عمدہ لباس زیب تن کئے ہوئے ایک شخص ان کی طرف آتا دکھائی دیتا ہے،چڑیا اپنے خاوند سے کہتی ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک شکاری ہے چلو یہاں سے اڑجاتے ہیں اور کسی اور درخت پر بیٹھ جاتے ہیں۔چڑا جواب دیتا ہے کہ بی چڑیا کچھ ہوش کے ناخن لو یہ آدمی تو وضع قطع سے مجھے کوئی حاجی نمازی دکھائی دیتا ہے۔یہ ہرگز اپنے لباس سے شکاری نہیں لگتا۔ابھی وہ محو گفتگو تھے کہ ایسے میں اس شخص نے اپنے جزدان سے تیرکمان نکالا اور چڑے کی طرف تان کر چلا دیا۔چڑا موقع پر ہی دم توڑگیا۔چڑیا یہ مقدمہ لے کر بادشاہ وقت کے پاس پہنچی اور اپنا مقدمہ بادشاہ کے حضور پیش کیا۔بادشاہ نے چڑیا سے پوچھا کہ تم کیا چاہتی ہو کہ اس کیس کے مقدمہ میں شکاری کو سزائے موت سنا دی جائے یا اسے چھوڑدیا جائے۔تو چڑیا نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت انصاف کرنا تو آپ کا وصف ہے میری بس اتنی سے شکائت ہے کہ آئندہ اگر یہ شخص کسی جانور کا شکار کرے تو شکاریوں والے کپڑے پہن کر جنگل کی طرف آئے تاکہ ہم اس کے کپڑوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔
حالیہ ملکی سیاسی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ لباس و پوشاک سے اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ شخص ملک کے لئے سودمند ہوگا کہ نہیں۔بس سوٹ ٹائی لگا کر آجاتے ہیں اور عوام کا شکار طرح طرح کے ٹیکسز لگا کر کرتے ہیں۔عوامی فلاح کا کوئی ایساپروگرام ان کے پاس نہیںہوتا جس سے عوام الناس سکھ کا سانس لے سکیں۔اس لئے کہ سب کے پاس ایک ہی بہانہ ہوتا ہے۔پچھلی حکومت خزانہ خالی چھوڑ کر گئی ہے۔لیکن ان کے خود کے اللے تللے کبھی رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔زرداری صاحب کو بھنڈی پسند ہے اس کے لئے جہاز جائے گا،میاں صاحب کو پائے اچھے لگتے ہیں اس کے لئے جہاز مری سے اسلام آباد جائے گا۔خان صاحب بنی گالا جائیں گے براستہ سڑک نہیں کاپٹر چاہئے۔ابھی حالیہ نگران وزیر اعظم بھی خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں کہ اقوام متحدہ میں خطاب سے قبل براستہ پیرس جاتے ہوئے ایفل ٹاور کی سیر اور مطعم ترکی کے کباب فیملی کو پسند ہے اس لئے عوام کا پیسہ ہے۔مال مفت دل بے رحم موج مستایں کرو،کون پوچھنے والا ہے۔عوام کا کیا ہے دو وقت کی روٹی اور وہ بھی مہنگے داموں۔محسن نقوی ایسے مواقع پہ یاد آجاتے ہیں
پہچان لو تمام فقیروں کے خدو خال
کچھ لوگ شب کو بھیس بدل کر بھی آئیں گے
لیکن میرے ملک کی قسمت کا حال کیا پوچھنا،وہ تو شورش کاشمیری بہت سال قبل بتا گئے کہ میری دیس کی سیاست کا حال کچھ ایسے ہے کہ جیسے طوائف تماش بینوں میں گھری ہوئی ہے۔اور یہ بات آج بھی اظہر من الشمس ہے کہ آج بھی سیاست تماش بینوں کے نرغے میں ہے،بس یہ سیاسی تماش بین اپنا اپنا لباس بدل کر آگئے ہیں۔تاکہ عوام ان کے سبز جبے،زرق برق لباس اور سوٹ ٹائی سے دھوکہ کھاتے ہوئے ایک بار پھر سے ذبح ہو جائیں۔ملک کیا ہے کبھی کبھی تو لگتا ہے عوام الناس کا مذبح خانہ ہے جس میں غریب کے گلے پہ چھری ہمہ وقت چلنے کو تیار ہے۔وہ ٹیکسز کی ہو،قیمتوں میں گرانی کی ہو،بجلی کے بلوں کی صورت میں ہو،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ کی مد میں ہو کہ سیاسی عذاب کی سورت میں۔
اگر میں یہ کہوں کہ ملک کو اس نہج پر پہنچانے کا ساری ذمہ داری سیاست دانوں یا اسٹیبلیشمنٹ کی ہے تونامناسب ہوگا،ہم عوام بھی شریک جرم ہیں، ہم تین تین بار آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو آج بھی مسیحائی کے لئے بلا رہے ہیں۔ملک کو لوٹ کر ملک سے باہر جائیدادیں بنانے والوں کی اولادوں کو ہم آج بھی جمہوریت کی بقا کا ضامن ٹھہرا نے کو تیار ہیں۔میں یہ بات اکثر کہا کرتا ہوں کہ قوموں کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگ پیدا کرتی ہے۔ہم جو بو رہے ہیں وہی کاٹ رہے ہیں تو پھر اعتراض کس بات کا۔ہم تو پیدا ہی غلامی کے لئے ہوتے ہیں وگرنہ ایک روزا پارک نے جنوبی افریقہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔میکیاولی کی ایک نظم نے فرانس اور اٹلی کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔اور ہمارے ہاں
اج آکھاں وارث شاہ نو کتوں قبراں وجوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
اک روئی سے دھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کیہن
عوام الناس ایسے ہی روتی کرلاتی رہے گی جب تک وہ زرق برق ،سوٹ بوٹ اور ٹائی والے بہروپیوں کو خود پہچان نہیں لیتے کیونکہ اپنی جنگ آپ لڑنا پڑتی ہے۔اپنا سہارا خود بننا پڑتا ہے۔رلانے والے سبھی ہوتے ہیں بچانے والا کوئی کوئی ہوتا ہے۔لہذا اے پاکستانی عوام خود کو پہچانو اور ان سیاسی بونوں اور بہروپیوں کو بھی جو عوام اور جمہوریت کے نام پہ ووٹ لے کر انہیں کا گلہ کاٹتے ہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button