عبدالستار افغانی ؒ

عبدالستار افغانی ؒکراچی لیاری کے علاقہ لی مارکیٹ کے قریب1930ء میں پیدا ہوئے۔ کراچی میں ہی اپنے اسی گز کی فلیٹ میں 2006ء میں وفات پائی۔ ان کو میوا شاہ قبرستان میں دفنایا گیا۔ ان کی نماز جنازہ اُس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر قا ضی حسین احمد نے پڑھائی تھی۔ عبدالستار افغانی دو دفعہ کراچی کے میئر رہے۔ ایک دفعہ کراچی ڈیفنس کلفٹن کے علاقہ، این اے250 سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ عبدالستار افغانی کے آبائو اجداد افغانستان کے غازی امان اللہ خان کی بغاوت کے زمانے میں ممبئی منتقل ہوئے۔ ان کاخاندان وہاں پچاس سال گزارنے کے بعد کراچی منتقل ہو گیا۔ وہ گھر میں فارسی زبان میں باتیں کرتے تھے۔عبدالستار افغانی نے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ نو عمری ہی میں سیاسی اور فلاحی کاموں میں حصہ لیا شروع کر دیا تھا۔ چودہ سال کی عمر میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور آخری دم جماعت اسلامی میں ہی رہے۔ سیاسی زندگی کا آغاز ایوب خان کے بی ڈی ممبر کی سیٹ جیت کر کیا۔ پھر ایک عرصہ تک شہری کمیٹی کی رکن بھی رہے۔ سیاسی اُفق پر اس وقت آئے جب انہیں1979ء میں جماعت اسلامی نے کراچی کے میئر کے لیے نام زد کیا اور کراچی کے میئر منتخب ہو گئے۔
کراچی میں میئر افغانی کے دور میں جتنے ترقیاتی کام ہوئے وہ کسی بھی اور دور میں نہیں ہوئے۔ وہ اپنی ان خدمات کی وجہ سے ایک بار پھر 1983ء کراچی کے میئر میں منتخب ہوئے۔ عبدالستار افغانی ایک اصول پسند آدمی تھے۔ ان کی حق خوئی و بے باقی کسی سے بھی ڈھکی چھی نہیں۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنانے میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کی ان خدمات کو اس کے سیاسی مخالفین بھی مانتے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے میں کراچی کا میئر ہوں۔ کراچی کی بستیاں میری بستیاں ہے۔ ان بستیوں کی ترقی میرا اولین فرض ہے۔ ان کی نماز جنازہ اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے پڑھائی تھی۔ ان کے نماز جنازہ میں عام شہریوں، ہر طبقہ کے مذہبی، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی تھی۔ عبدالستار افغانی کی ہر دل عزیزی، ایمان داری، سادگی، ایثار، قربانی، جد وجہد، زہد، قناعت، صبر و شکر اور سب سے بڑھ کر عوامی خدمت کی وجہ اور طرز حکمرانی سے عہد قرون اولیٰ کی طرز حکمرانی کی یاد تازہ کر دی ہے۔
عبدالستار افغانی ایک غریب خاندان اور ایک غریب بستی لیاری کا ثپوت، گندی گلیوں میں کھیلنے والا بچہ بڑا ہو کر عروس البلاد کراچی کا رئیس اور ڈیفنس اور کلفٹن پوش علاقہ سے ممبر قومی اسمبلی بن جائے گا۔ یہ جماعت اسلامی کا کلچر ہے کہ ایک عام آدمی اپنی محنت اور اسلامی خدمات کی وجہ سے جماعت اسلامی کا امیر بھی بن سکتا ہے، جیسے ایک غریب سراج الحق اس وقت جماعت اسلامی کا امیر ہے۔ سال 2002ء میںراقم اُن کی سیٹ این اے250 ڈیفنس کلفٹن کراچی کا الیکشن انچارج تھا۔ ڈیفنس ہائوسنگ اتحارٹی فیز ٹو ایکسٹنشن میں میرا تجارتی آفس عبدالستار افغانی کا الیکشن کمپین مرکز بنا تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی رات دن کی محنت، عبدالستار افغانی کی اپنی ہر دل عزیز شخصیت کی وجہ جماعت اسلامی کراچی ضلع جنوبی کو پہلے مرتبہ قومی اسمبلی کی سیٹ ملی تھی۔ عبدالستار افغانی کی مد مقابل ایم کیو ایم کی نسرین جلیل صاحبہ تھیں۔ ایم کیو ایم کی ساری زیادتیوں، غنڈاگردیوں کے باوجوں علاقہ کے عوام نے عبدالستار افغانی کو جتوایا۔ قومی اسمبلی کی نیچے دو صوبائی سیٹوں پر متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر ایک جمعیت علمائے پاکستان اور ایک جمعیت علمائے اسلام(س) کے امیدوار تھے۔ یہ دو سیٹیں بھی ہم نے نے جیتیں تھیں۔ ایم کیو ایم نے نتائج فائنل کرتے وقت ضلعی الیکشن آفس میں دھاندلی سے ان سیٹوں کو اپنے نام کرا لیا۔ عبدالستار افغانی کی سیٹ کو دھاندلی سے بچانے کے لیے ہمارے کارکن کثیر تعداد ضلعی الیکشن آفس پہنچ گئے تھے اور نتائج کو تبدیل نہیں کرنے دیا تھا۔ عبدالستار افغانی لیاری، لی مارکیٹ کے قریب اپنی خاندانی بلڈنگ میں اسی گز کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھے۔
دو دفعہ کراچی جیسے بڑے شہر کی میئر اور ایک دفعہ قومی اسمبلی کے ممبر رہنے والے عبدالستار افغانی نے جب وفات پائی تو اسی اسی گز کے فلیٹ سے ان کا جنازی نکلا تھا۔ اربوں روپوں کے فنڈز پر دسترس رکھنے والا عبدالستار افغانی نے ایک روپے کی بھی کرپشن نہیں کی۔ کراچی کوئینز روڈ پر کراچی بلدیہ کے ایئر کنڈیشن بنگلے میں منتقل نہیں ہوئے تھے۔ عوامی کاموں اور دفتر آنے جانے کے لیے صرف ایک گاڑی استعمال میں رکھی۔ کسی قسم کی بھی جائز مراہات لینے سے انکارکرادیا تھا۔ جب قومی اسمبلی کا ممبر تھے تو جو تنخواہ ملتی تھی عوامی دفتر کا کرایہ ٹیلی فون کے بل کے بعد باقی بچی ہوئی رقم ہر ماہ جماعت اسلامی کے فنڈ میں جمع کرا دیتے تھے۔ کبھی بھی اپنے رشتہ داروں کو فائدہ نہیں پہنچایا۔میں قریب رہنے کی وجہ سے اس کے عینی گواہ ہوں۔ یہ جماعت اسلامی کی تربیت تھی کہ ہاتھ روکے رکھا۔ ایک پرائیویٹ ادارا، خان بوٹ ہائوس کے ملازم معمولی شخصیت کے مالک عبدالستار افغانی کو دو بار میئر کراچی اور ایک بار ممبر قومی اسمبلی بنانے میں جماعت اسلامی کا ہاتھ تھا۔ اس سے ثابت ہوتا کہ جماعت اسلامی میں ایک عام آدمی اپنی ایمان داری کی وجہ سے
اتنے بڑے عہدے پر بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس وقت بھی جماعت اسلامی کاا میر سراج الحق صاحب ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ عبدالستار افغانی نے کسی کی ترقی میں یا کسی سرکاری تقرر میں یا کسی ذاتی کام میں ضابطے کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ رشتہ دار ہو، یا پارٹی کاکارکن ، دوست ہو یا جرنلوں کی سفارش ہمیشہ اصولوں پر ڈتے رہے۔ اپنے بیٹے کی میڈیکل کالج کے داخلے کے لیے سفارش محض اس لیے نہیں کی کہ اس طرح کسی کا حق مارا جاتا ہے۔ خاندان کے اکثر لوگ اسی وجہ سے ان سے ناخوش تھے کہ میئر بن کر بھی ہمارے بچوں کو نوکریاں نہیں دلاتا۔ اپنی میئر شپ کے دوران کسئی قسم کا نیا ٹیکس بھی نہیں لگایا تھا۔ صرف کرپشن کو روک کر اس وقت کے بلدیہ کراچی کے سالانہ بجٹ میں کروڑوں کا اضافہ کیا تھا۔ باہر کی مانیٹرنگ اجنسیوں نے عبدالستار افغانی کے دنیا کا بہترین میئر کا رتبہ دیا تھا۔ ایک بار صدر ضیاء الحق کے دوست سفارش لے کر ان کے پاس آئے اور کسی ایگرینٹ کے لیے کہا۔ عبدالستار افغانی نے انکار کر دیا اور ان صاحب سے کہا کہ صدر صاحب کو بتائیں کہ میں ان کا ملازم نہیں بلکہ اہل کراچی کا خادم ہوں۔ وہ خود یہ ایگریمنٹ کروالیں۔ اسی زمانے میں عبدالستار افغانی نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ کراچی کی سڑکیں تو بلدیہ کراچی بناتی ہے۔ جبکہ کراچی کی سڑکوں پر چلنی والی گاڑیوں کا ٹیکس صوبائی حکومت ہڑپ کر لیتی ہے۔یہ ٹیکس بلدیہ کراچی کو ملنا چاہیے۔
عبدالستار افغانی اپنی ایک سو کے قریب ممبران بلدیہ کو ساتھ لے احتجاج کرنے سندھ اسمبلی پہنچے تو صوبائی حکومت نے مرکزی حکومت کی ایما پران پر پولیس گردی اور تشدد کیا ۔ میئر افغانی سمیت ایک سو سے زاہد ممبران بلدیہ کو جیل میں بند کر دیا۔ میئر شب کے بعد سارا وقت جماعت اسلامی کے مرکز میں گزارتے تھے۔ افغانی صاحب ہمیشہ اپنی شناخت جماعت اسلامی کے نام سے ہی کرواتے تھے۔ افغانی صاحب ا بھی اپنی راہے رکھتے تھے۔ مگر نظم کی پابندی ان میں کوٹ کوٹ پر بھری ہوئی تھی۔ کئی بار جیل کی صعبتیں بھی برادشت کیں۔ راقم کبھی حلقہ، کبھی زون، کبھی کراچی ضلع جنوبی کے نائب امیر کی ذمہ داری کے وقت ان کو پرگروموں میں شرکت دعوت دینے جاتا رہتا تھا۔ ہمیشہ افغانی صاحب کو صابر شاکر پایا۔کبھی بھی چھوٹے بڑے اجتماع میں شریک ہونے سے منع نہیں کیا۔اللہ افغانی صاحب کی دین کی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کی قبر کو نور سے بھر دے آمین۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button