نواز شریف کا جارحانہ انداز

گذشتہ چند دنوں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا انتہائی جارحانہ اندازبیان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لندن میں پارٹی اکابرین کی بیٹھک میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ 2017 کے ہنستے بستے پاکستان کو سازش کے تحت بربادی کے دہانے پر لا کر کھڑا کیا گیا۔نواز شریف نے کہا کہ کھلنڈروں کے ٹولے کو پاکستان پر مسلط کیا گیا، جب تک سازش میں شامل تمام کرداروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس و دیگر چند ججز اور انکے دور کی اعلی ترین عسکری قیادت پاکستان اور 22 کروڑ عوام کے مجرم ہیںاور ان عہدیداران کا جرم قتل سے بڑا ہے، انہیں معاف کرنا قوم کے ساتھ ناانصافی ہو گی، وہ معافی کے مستحق نہیں ہیں، ہم ان کا احتساب کریں گے۔
دوسری جانب مریم نواز نے کہنا تھا کہ نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ ان کے والد کی جانب سے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرنے کے بعد بنایا گیا تھا۔ نواز شریف کی جانب سے 2017 میں انہیں اقتدار سے ہٹانے پر کچھ سابق جرنیلوں اور ججوں کے ’سخت احتساب‘ کا بڑا مطالبہ سامنے آنے اور سابق ریاستی عہدے داروں کے خلاف تابڑ توڑ بیانات نے پاکستانی سیاست میں اک مرتبہ پھر بھونچال سی صورتحال پیدا کردی ہے۔ میاں نواز شریف کی جارحانہ انداز سیاست کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے میاں شہباز شریف کو پہلی دستیاب فلائٹ سے لندن روانہ ہونا پڑا۔ تادم تحریر میاں شہباز شریف کی لندن یاترا بے سود ثابت ہورہی ہے۔ یاد رہے ماہ رواں کے اوائل میں سابقہ ملکی اہم شخصیات اور نواز شریف کے مشترکہ دوستوں کے ذریعے مشورہ دیا گیا تھا کہ نوازشریف ماضی کو بھول کر مستقبل کی سیاست کو دیکھیں مگر نواز شریف نے مشترکہ دوستوں کی اس درخواست کو یکسر مسترد کردیا تھا کہ سابق اعلی ترین عسکری قیادت اور سابق ججز کے خلاف تنقید نہ کی جائے۔
نوازشریف کا موقف تھا کہ صرف میری ذات کی بات ہوتی تو درگزر کر جاتا لیکن ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا ۔ سازشی عناصر کو ہر صورت میں قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔ یاد رہے پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ انتہائی تلخ و ہوشربا حقائق پر مبنی ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو کھل کر حکومت کرنے کے مواقع نہیں دیئے گئے۔ ہم نے بنگالی بھائیوں کو انکا سیاسی و معاشی حق دینے کی بجائے ان سے جان چھڑانے میں عافیت جانی۔ ماضی کی آمرانہ طرز حکمرانی نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو دولخت کروایا تو کبھی غیروں کی بے مقصد اور بے فائدہ جنگوں میں ہزاروں پاکستانیوں کو موت کی وادیوں میں پہنچانے کیساتھ ساتھ اربوں ڈالروں کا معاشی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔
اسلامی دنیا کے نامور لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کروایا گیا تو کبھی سیاسی قیادت کو جبری جلاوطنی اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ کبھی من گھڑت کرپشن مقدمات کی سُولی چڑھادیا گیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ پاکستانی ریاست نہ چاہتے ہوئے آئی ایم ایف کی غلامی میں آچکی ہے۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں و عصمتوں کی قربانی دیکر اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسی عظیم ریاست کو حاصل کیامگر آج پاکستان کے نوجوان وطن میں رہنے کی بجائے اسی انگریز کے دیس میں پہنچے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے ہمسائے بھارت اور بنگلہ دیش دنیا کی اُبھرتی ہوئی معاشی ریاستیں بن چکے ہیں افسوس ہم آئی ایم ایف کی غلامی میں چلے گئے۔ پاکستان کی مشرقی و مغربی سرحدیں طرفین کے خطروں میں گھری ہوئی ہیں ۔ مذہبی فرقہ پرستی ، سیاسی شخصیت پرستی، دہشتگردی ، سیاسی و معاشی اور معاشرتی بحرانوں نے ریاست پاکستان کی کمر توڑ دی ہے۔وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد کی صورتحال انتہائی نا گُفتَہ بِہ ہوچکی ہے۔مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ان تینوں ستونوں کی باہمی چپقلش دن بدن ریاست پاکستان کو کمزور سے کمزور کئے جارہی ہے۔
ریاست پاکستان کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کے لئےیہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی لیڈرشپ بشمول میاں نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمان ، الطاف حسین، قومی و صوبائی سیاسی قیادت کیساتھ ساتھ اعلی ترین عسکری قیادت اور عدلیہ کے اعلی ترین عہدیداران اپنے تمام تر باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اکٹھے بیٹھیں اور ماضی میں ہونے والی غلطیوں، کوتاہیوں اور سازشوں پر کھلے دل سے پوری قوم کے سامنے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے سرعام معافی مانگیں اور ماضی ہونے والےایسے اقدامات کی روک تھام کے لئے اک نیا معاہدہ منظرعام پر لائیں۔ جس طرح ماضی میں سیاسی حریف نواز شریف و بےنظیر بھٹو نے شدید سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈالا اور تاریخی میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے۔ ریاست پاکستان کی بقاء کے لئے پاکستان کے تمام متعلقین تمام تر اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کیساتھ بیٹھیں اور ریاست پاکستان کو سنگین سیاسی، معاشی اور آئینی بحرانوں سے نکالیں۔ یہ وطن ہے تو ہم ہیں ۔ یہ وطن نہیں تو ہم کچھ نہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button