حالات دگرگوں

آج ہماری آبادی 24 کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے قابل ذکر صلاحیتوں سے مالا مال تعلیم یافتہ افراد ہمارے پاس موجود ہیں جو دنیا بھر میں اپنی قابلیت کے بل پر نمایاں حیثیت رکھتے ہیں اس کے باوجود ہماری شرح نمو گراوٹ کا شکار ہوکر 3.5 فیصد تک گر چکی ہے معدنی اور زرعی وسائل سے مالامال ملک ہونے کے باوجود مہنگائی کی شرح29.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے، آج ہم اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق بیرونی سرمایہ کے ذخائر صرف 13.4 بلین ڈالر کے رہ گئے ہیں ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح، تعلیمی سہولیات کی کمی، رشوت ستانی، جمہوری سیاسی عدم استحکام، کمزور نظام انصاف، انتہاپسندی، دہشت گردی اور ہمسایہ ممالک سے دراندازی جیسے دشوار چیلنجز بھی ہمیں درپیش ہیں بیرونی ممالک سے بجٹ خسارے کو دور کرنے کے لئے گئے قرضہ جات جو نام نہاد اشرافیہ(حکمران طبقہ) عوامی بہبود کے نام پر لیتا رہا ان قرضوں اور اس پر ادا کئے جانے والے سود کی ادائیگیوں کے مسائل نے ہمیں معاشی بحران سے ہمکنار کردیا ہے یوکرائن اور روس کی جاری جنگ نے جہاں دنیا بھر کی معیشت کو خطرات سے ہمکنار کیا وہیں پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کو بھی متاثر کردیا جہاں آج بھی تیل،بجلی،گیس،خوراک غریب کی پہنچ سے دور ہے اسکے باوجودپاکستان کو اللہ تعالیٰ نے جن قدرتی خوبیوں سے نوازا ہے وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں، ایک حالیہ بین الاقوامی سروے کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا ملک کے جس کے پاس 78 ارب ٹرلین ڈالر کے معدنی وسائل سونے،چاندی،تانبا،جپسم،کوئلہ،نمک اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر موجود ہیں، آج بھی پاکستان شمسی توانائی کے ذریعہ 2900 گیگا واٹ، ونڈ پاور 340 گیگا واٹ، اور 60 گیگا واٹ ہائیڈرو پاور کے ذریعے بجلی پیدا کرسکتا ہے دنیا بھر میں ہمارے پاس کوئلے کے جو ذخائر ہیں ہم دوسرے نمبر پر ہیں دودھ کی پیداوار میں ہم دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہیں کپاس اور گنے کی پیداوار کے حوالے سے دنیا بھر میں ہمارا پانچواں نمبر ہے آم اور کھجور کی پیداوار کے حوالے سے ہم دنیا میں چھٹے نمبر پر ہیں دنیا بھر میں گندم پیدا کرنے والے ممالک میں ہم آٹھویں نمبر پر ہیں اس کے علاوہ افزائش حیوانات میں بھی ہم دنیا بھر میں 20 ویں نمبر پرکھڑے ہیں، یہ اعداد وشمار صرف ذراعت کے شعبہ سے متعلق ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم باقی شعبوں میں فارغ ہیں، اللہ کے فضل سے اب ہم پاکستانی ٹینک جہاز اور دیگر اسلحہ بھی دنیا کے ممالک کو فروخت کر رہے ہیں اس کے باوجود عام شہری کو کھانے کے لیے جان کے لالے پڑرہے ہیں اورہمارے مسائل حل نہیں ہورہے کیونکہ یہ نام نہاد اشرافیہ جو مختلف محکموں، اداروں اور اسمبلیوں میں بیٹھی عوامی حاکمیت کے مزے کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی لوٹ رہی ہے یہی اشرافیہ انسانی ترقی اور سماجی انصاف کی فراہمی میں بہت بڑی تکاوٹ ہے جو جمہوریت، احتساب اور مساوات کی بنیادوں کو کھارہی ہے، یہ نام نہاد اشرافیہ ہماری قومی معیشت کا تقریبا ایک ٹریلین روپیہ مراعات، سبسڈیزاور ٹیکس میں چھوٹ کے ذریعے ہضم کرجاتی ہے یہ امتیازی سلوک بڑھتا ہی چلاجارہا ہے، اور عوام کا ان امتیازی مراعات اور سہولتوں کے خلاف جدوجہد نہ کرنے سے نام نہاد اشرافیہ کا ظلم مزید بڑھتا ہی جارہا ہے یہ امتیازی سلوک جہاں متاثرہ فریق کو محروم ترین طبقات میں تقسیم کررہا ہے،وہیں اس نام نہاد اشرافیہ اور محروم طبقات کے درمیان تعلقات کی خلیج بھی وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔
عوام کچھ عرصہ تو اس ناانصافی کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن بجلی کے بلوں میں ہوشربااضافہ، تیل کی قیمتوں کی زیادتی،ڈالر کی مصنوعی قلت، چینی کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا اوربے جا ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام کو فاقوں اور خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے اور حکومت کچھ نہیں کررہی سوائے بجلی چوری اور ڈالر کی چوری اور اسمگلنگ روکنے کے ساتھ ساتھ اسمگل شدہ ایرانی تیل کے خلاف ہی ایکشن میں نظر آرہی ہے حالانکہ نگران حکومت کا تو کام ہی ملک میں منصفانہ الیکشن کروانے کا ہے لیکن نگران تو یوں بیٹھے ہوئے ہیں جیسے وہ بھاری مینڈیڈیٹ سے الیکشن جیت کر آئے ہو ں اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یقین سا ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی ہم پر آکر مسلط ہوجائے ہم سب اسکے درباری بن جاتے ہیں ان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت بھی شامل ہے ہماری خواتین بھی اپنے حقوق سے لاعلم ہیں اور گھروں میں روٹی چولہا جھونکنے کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔
ایسے حالات میں حکومت کو چاہیے کہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کی بجائے اپنی مراعات کم کرے اور کفایت شعاری اپنانے کا اعلان کرے کابینہ کی فوج ظفرموج کا سائز گھٹایا جائے غریب قوم 75برسوں سے قربانیاں دے رہی ہے اب ان میں مزید قربانی کی سکت نہیں رہی یہی وجہ تھی کہ ہمارے 300نوجوان یونان کے سمندر میں ڈوب گئے ان کی لاشیں بے گوروکفن ساحل پر پڑی رہی اگر عوام کا حقیقی اور ہمدرد وزیراعظم ہوتا تو وہ آدھی رات کو ساحل پر پہنچتا اور اپنے بچوں کو سینے سے لگاتالیکن ایسا کچھ نہیں ہوا پی ڈی ایم حکومت کی طرح اب نگران حکومت نے بھی پٹرولیم مصنوعات،بجلی گیس ودیگر اشیاء کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کر کے مہنگائی کا نیا طوفان کھڑا کردیا ہے بھاری سودی قرضوں،بدترین مہنگائی اورآئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرکے عوام کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے ۔
حکمران سنجیدہ ہوکرملک وقوم کے مفادات کا سوچ لیں ملک بھر میں غربت بے روزگاری کی وجہ سے مہنگائی نے عوام کو زیادہ پریشان کر رکھا ہے اور صورتحال کچھ یوں بنی ہوئی ہے کہ حکومت غافل عوام پریشان اور نوجوان بے روزگار ہیں حکمران بے عمل وعدوں کا سہارالے رہے ہیں۔بدترین مہنگائی،بے روزگاری اورغربت کی وجہ سے ملک میں غریب عوام کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ایسی صورتحال میں امیر پہلے سے زیادہ امیر ترین اور غریب پہلے سے زیادہ غریب ہوچکے ہیں حالات دن بدن دگرگوں ہوتے چلے جارہے ہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button