پاکستان’’ٹی پارٹی‘‘کا منتظر

واصف علی واصفؔ کہتے ہیں کہ انقلاب اگر ناکام ہو جائے تو بغاوت بن جاتی ہے اور بغاوت اگر کامیاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتی ہے۔دنیا کا کوئی بھی انقلاب ایک دن میں رونما نہیں ہوجاتا کہ اس کے لئے شبانہ روز محنت،تعلیم،تربیت،تشویق،محرک اور مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں،انقلاب اسلام سے انقلاب ایران تک ایسا کوئی انقلاب نہیں جوظالمانہ طرز عمل کو للکارنہ ہو۔ایسا ہی ایک انقلاب بوسٹن ٹی پارٹی بھی ہے۔جس کی مختصر تفصیل کچھ ایسے ہے کہ سترھویں صدی کے آخر میں برطانیہ نے امریکہ پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی ،جی ہاں تب امریکہ بھی اسی سلطنت کا حصہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس سلطنت کا سورج غروب نہیں ہوتا۔یہ ظالمانہ ٹیکسز کا نظام اس قدر بڑھ گیا کہ لوگوں کے چائے پینے پر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا جسے Tea Act کا نام دیا گیا۔چونکہ امریکہ ایک کالونی تھا اس لئے برطانیہ ان کے رگ رگ سے ٹیکسز لگا کر خون نچوڑنا چاہتا تھا۔مقامی لوگوں کو یہ قبول نہ تھا اس لئے انہوں نے آہستہ آہستہ بغاوت کی طرف قدم بڑھانے شروع کردئے۔اتفاق سے ان دنوں امریکہ کی بوسٹن بندرگاہ پر تین چائے سے بھرے جہاز لنگرانداز ہو ئے تھے۔بوسٹن کے باشندوں نے جو کہ پہلے ہی ایک انقلاب کی طرف بڑھ رہے تھے انہوں نے ایک سیاہ رات ان تمام جہازوں پر اپنا قبضہ جما کر جہازوں میں موجود تمام چائے کو سمندر برد کردیا۔جہازوں پر چائے ہزاروں من تھی اور یہ واقعہ تاج برطانیہ کے لئے کوئی عام واقعہ نہیں تھا۔ایک وارننگ تھی کہ اب بھی اگر آپ نے ہم عوام پہ ٹیکسز عائد کئے تو یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں۔گویا امریکا کی جنگ آزادی کی طرف یہ نقطہ آغاز تھا۔اور انقلاب کا پیش خیمہ بھی۔یہ واقعہ 1773 کا ہے ۔ایک سیاہ رات کے اختتام کے سورج طلوع ہونے کا دن۔گویا یہ ایک ایسی مہمیز تھی کہ جس کی انتہا 1775 طلوع آزادی کی صورت میں ہوئی۔اس واقعہ کو ’’بوسٹن ٹی پارٹی‘‘کا نام دیا گیا۔
پاکستان کی حالیہ صورت حال کا اگر سیاسی ومعاشی تجزیہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے سے عوام الناس کا گرد دائرہ حیات اتنا تنگ کر دیا گیا ہے کہ انہیں ماسوا روٹی کے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔بلکہ عوام جس قدر ٹیکسز کے انبار تلے ملکہ پاتال کی گہرائی میں کہیں مدفن ہو کر رہ گئے ہیں انہیں روٹی کی گولائی سے باہر نکلنے کا راستہ کہیں دور دور دکھائی نہیں دکھ ریا،دوسری طرف سیاستدانوں اور حلقہ ارباب واقتدار اس بات کی بین بجائے جا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو لاگو کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔آئی ایم ایف کے عہدیداران کا بیان ہے کہ ہم تو امیروں کی عیاشیوں کو کم کرنے کی وارننگ دے رہے ہیں۔عوام جائے تو جائے کہاں۔
زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
مرتے کیوں نہ،مہنگائی کنٹرول میں نہیں،یوٹیلٹی بلز اوقات سے باہر،اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی شرح،بے روزگاری اپنے نقطہ عروج پہ،قانون نام کی کوئی شے نہیں،پٹرول کی قیمتیں رکنے کا نام نہیں،عدم استحکامی کی وجہ سے معاشرہ میں انتشار،دوسری طرف آئی ایم ایف کی من مانیاں،بیوروکریسی کی عیاشیاں،حکومتوں کے اخراجات،ان سے کے بعد اگر ملک میں مہنگائی نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا۔اگرچہ ابھی چائے پہ ٹیکس ویسا نہیں لگا جیسا کہ بوسٹن میں لگایا گیا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ عوام منتظر ہے کہ چائے پہ ٹیکس لگے تو پھر وہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں گے۔جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔کہیں ایسا نہ چائے بحیرہ عرب میں پھینکنے سے قبل عوام ٹیکسز کے بوجھ تلے دب کر خود ہی بحیرہ عرب کا رخ اختیار کرجائیں کہ موت آتی نہیں اور خود کشی اسلام میں حرام ہے۔
مجھے تو کبھی کبھار لگتا ہے کہ ہم مہذب معاشرہ کیا معاشرہ کی تعریف پہ بھی پورا نہیں اترتے۔کیونکہ ہم جس اسلامی معاشرہ کے داعی ہے اس میں تو ایثار،قربانی،خیرات ،زکوۃ،صدقات اورمواخات پر مبنی تھا۔اب شائد یہ تمام معاشرتی محاسن ہم سے ناراض ہو کر ان ممالک کارخ اختیار کر گئے ہیں جنہیں ہم کافر کہتے ہیں۔جہاں جھوٹ بولنا مردہ ضمیر ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہے ہم تو جھوٹ کی سولی پر سچ کو مصلوب کر دیتے ہیں۔کرپشن کر کے سینہ تان کر کہتے ہیں ثابت کر کے دکھائیں ۔ارے نادانوں وہاں کیسے چیلنج کرو گے جہاں اعضائے انسانی پکار پکار اور چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں گے کہ ہم سے یہ یہ گناہ سرزد ہوئے ہیں۔وہاں کسی کو ثابت نہیں کرنا ہوگا وہاں اعمال کے نتائج بولیں گے۔اسی تو دنیا میں انہیں معاشروں نے ترقی کی ہے جنہوں نے ایثار و قربانی کے فلسفہ کو جان لیا۔جنہوں نے لینے کی بجائے دینے کو ترجیح بنا لیا۔جسے آج کی زبان میں سوشل انٹر پرینیور کہا جاتا ہے۔بل گیٹس نے پہلے پیسہ کمایا پھر اسے لوگوں پہ خرچ کرنا شروع کردیا،بل کلنٹن نے اپنی ساری جائیداد صدارت سے اختتام پر فلاحی کاموں پہ لگا دی،جمی کارٹر امریکہ کا مشہور صدر جنہیں دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ نوبل انعام دیا گیا لیکن بطور صدر نہیں بلکہ بطور سوشل انٹر پرینیور۔مجھے ڈاکٹر امجد ثاقب کی بات یاد آگئی کہ لوگ جن پہ اعتماد کرتے ہیں انہیں وہ دل کھول کر دیتے ہیں کیونکہ اہل ثروت جانتے ہیں کہ ان کا پیسہ صحیح اور مناسب کام پہ لگایا گیا ہے۔لوگ اور معاشرہ وہی بڑے بنتے ہیں جنہوں نے اس عمل کو پالیا ۔وہ اسی لئے بڑے ہیں کیونکہ وہ خدمت وایثار کا جذبہ رکھتے ہیں۔اسی لئے وہ امیر ہیں اور ہم اس وقت امیر ہوتے ہیں جب سیاست میں ہوتے ہیں۔بل کلنٹن کی کتاب giving کا اختتام مارٹن لوتھر کے اس قول سے ہوتا ہے کہ
everyone can be great because everyone can serve.
خدارا اپنی عوام پہ رحم کھائیں اس سے قبل کہ ایک ٹی پارٹی بوسٹن کی بجائے پاکستان میں منتقل ہو جائے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button