اخبارات کی صحت مند زندگی معاشرے کی بیماری دور کرتی ہے!

ہند و پاک کی انگریزوں سے آزادی میں جو کرداراردو صحافت نے ادا کیا اس کی مثال نہیں ملتی غلامی کے اندھیروں میں قلم کے چراغوں نے تحریروں کی روشنی سے لوگوں کے زہنوں میں آزادی و حقوق کی راہیں ہموار کیں ادیب شاعر لکھاری صحافت کے میدان میں اترئے تو انسانیت کی آواز بن گئے لوگوں سے ملے بغیر ان کے دلوں کی باتیں قلم کی زبان سے بیان کرتے کرتے امر ہو گئے صحافت نے احساس و عمل کی چنگاڑی سے لوگوں کے دلوں کو فروزاں کرکے لبوں کے تبسم کو ہیرا اور آنکھ کے آنسو کو موتی بنا دیا ۔عام و خاص انسانیت کے احساس و جذبات کی ترجمانی کے لیے خدا نے اہل قلم قبیلہ پیدا کیا ۔دور حاضر میں اردو صحافت کئی مسائل درپیش ہیں جیسے کئی اخبارات مالکان بے لگام دور مہنگائی میںایڈیٹر و سٹاف کوشرمناک تنخواہیں دیتے ہیں اُن کی بڑی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیںاور وہ مجبورا پیسوں کے حصول کے لیے ایسے لکھاری اپنے ساتھ جوڑتے ہیں جو ان کی مالی مدد کریں اس سے ایڈیٹرز کی ضرورتوںمیں کچھ کمی تو آجاتی ہوگی مگر قارئین کے ساتھ بڑا ظلم ہوجاتا ہے ایڈیٹر تحریر کے معیار کی بجائے پیسوں کوزہن میں رکھتے ہیں اور ان کی نظروں تلے عوامی خواہشات کو کچل کرغیر ضروری موضوعات پر بے وزنی غیر متاثرکن تحریریں شائع ہونے لگتی ہیں جو قارئین پڑھ کر بور ہو تے ہیں اور حاصل تحریر سے ہونے والی علمی ادبی زہنی نشونماکے مفید نتائج سے محروم رہ جاتے ہیں جواخبار کی فروخت میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔جبکہ اردو کی خدمت کرنے والے طالب علم لکھاری ادارے کو مفت تحریریں بھیجتے ہیں ۔باقی رہی بات خبروں کی تو آج ہر بندے کے ہاتھ میں سوشل میڈیا سے جوڑنے والا موبائل ہے جو کل اخبار میں آنے والی خبر آج ہی مہیاکر دیتا ہے ۔اگر سرکاری اشتہارات کو اخبارات کی بجائے ادارے کی ویب سایڈ پر آ ویزاں کر دیا جائے تو اخبار کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔کتنے ہی بڑے اخبار وں نے میگزین کے صفات کم کر دئیے اور کہیں میگزین ختم ہی کر دئیے گے جو ترویج اردو کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے ۔کئی اخبارات پرنٹ میڈیا سے دلچسپی کا رخ موڑ کر الیکٹرانک میڈیا کی جانب لے گئے یہ بھی اخبار بینی کا گلہ گھونٹنے والی با ت ہے۔ جب چیف ایڈیٹرسے دریافت کریں کہ اُن کی آمدن کا پیمانہ کیا ہے تو وہ بہت حوصلہ شکن ہوتا ہے مگر وہ اخبارات ورسالہ جات کی خوبصورتی اور مانگ بڑھانے پر کامیاب حکمت عملی بھی تو کر سکتے ہیں وہ عوامی سپورٹ حاصل کرنے میں سنجیدہ کیوں نہیں۔
کئی گروپس نے تجارتی ادارے کے طور پر اخبار کھڑے کیے ہیں جن کی پیچھے سیاسی جماعت کی سپورٹ ہوتی ہے جونہی سیاست پہ ذوال آیا اخبار پہ بھی ذوال آ گیاآپ پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کے پیچھے کے حالات جانیںتو معلوم ہوگا کہ جو میڈیا مالک کا مسلک ہے وہی پلیٹ فارم کا مسلک ہے کہیں پسے پردہ سیاسی جماعت یا ملکی و غیر ملکی تنظیم اداروں کاظاہری و پوشیدہ ایجنڈا ہوتا ہے جن کا مقصدحالات کی سچائی و حقائق بیان کرنا نہیں بلکہ ایک ایسا ہتھیار اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے جیسے اپنے مقاصدکے لیے استعمال کیا جا سکے جس کی وجہ سے حالات اور خبروں کا تضاد کھلے عام نظر آتا ہے اور لوگ صحافت کو جھوٹ کا دوسرا روپ سمجھتے ہیں ان کے پیچھے مراحات واشتہارات کے حصول کی مجبوریاں بولتی ہیں جو صحافی یا اخبار کی نہیں بلکہ سرکار کی زبان ہوتی ہے وہ جو چاہتی ہے وہ بتایا جائے یا چھپایا جائے کس پر بولا جائے کس پر خاموش رہا جائے یعنی سچ کی بجائے حکومت کی طرفداری میں لکھنے کی وجہ سے بھی اخبارپڑھنے والوں میں نمایاں کمی آتی ہے اب تو بڑے اخبارآن لائن ہونے میں بیتاب محسوس ہوتے ہیںایسے میںکا غزی اخبار بینی کے اضافے پرہونے والی حکمت عملی نظر نا آنا بھی پرانی رویات کو دفنانے جیسا ہے اخبار کو زندگی دینے کے لیے پڑھے جانے کا آب حیات پیلانے والے سچائی کے سفیر درویش صحافیوں کی تجاویز پر ایمرجنسی صورت میں اقدامات کرنا بہت ضروری ہیں۔
معاشرے کی زہنی اصلاح وترقی میں حقیقی صحافت جو کردار ادا کر سکتی ہے وہ زہن سازی کسی اور شعبے سے ممکن نہیں جب قلم کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے تو عوامی دماغ قیدی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگر آپ نے کسی دور حکومت کے بارے میںجاننا ہو تو اُس وقت کا ادب پڑھیں۔ سیاست میں الجھے زہن ادب کی جانب آ سکتے ہیں مگر ادب کی ترویج کرنے والے زہن سیاست کی جانب جاناقلم کے تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں وہ سیاست پر لکھیں بھی تو ان کا سچ ہضم نہیں ہوتا اس میں قصور ان کا نہیں بلکہ سیاست کے بگڑے ہوئے حیلے کا ہے۔صحافت سیاست کے سامنے بے بس ہوتی آ رہی ہے عوامی خریداری کے بل بوتے پر چلنے والے اخبارات ہی عوامی ترجمانی کو سچ کا لبادہ پہنا سکتے ہیں ۔مالی خسارے میں کئی مالکان مجبور ہوجاتے ہیں کہ اہلکاروں کی تنخواہوں اور مطولبہ اخراجات کے حصول کے لیے ہر طرز پر اشاعت ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے صحافت کئی مقام پرصحافت نہیں رہی بلکہ قصیدہ خانی ہو گئی ہے شخصیت پرستی کے خواہشمندافراد کو منظر عام پر لانے میں کیسے کیسے غیر ضمیری مقام سے گزرنا پڑتا ہے حقیقی صحافی کے لیے تو یہ صحافت کے وقار کو مجروع کرنے والی بات ہے مگر مصنوعی صحافی کے لیے یہ ایک فن ہے جو اُس کے لیے تو کچھ فائدہ مند ہوسکتاہے مگر صحافت کے دامن پر وہ داغ دیکھاتا ہے جس کی وجہ سے عام لوگ صحافت کو اُس نظروں سے نہیں دیکھتے جس تقدس و حرمت کی صحافت حقدارہوتی ہے۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی چھوٹے شخص کے بڑے عہدے پرفائز ہو جانے سے مجبوراصحافی کو تعریف لکھنا پڑھ جاتی ہے توتحریروں کے باکمال استاد کہتے ہیںکہ تحریر میں آنکھ مارنا بھی سیکھیں۔اب یہ آنکھ مارنا کیا ہوتا ہے یہ سمجھنے کے لیے آپ کو ایک واقعہ اکبر الہ آبادی کا سناتا ہوں جس میں انہوں نے کسی کے بارے میں لکھاتھا کہ کون سا لا کہتا ہے اس کو پڑھنے کے بعد اکبر الہ آبادی پر سخت تنقید ہوئی اور جواب طلب کیا گیا تو انہوں نے کہا میں نے سالا تھوڑی کہا تھا یعنی گالی تھوڑی دی تھی میں تو کہا تھا کون سا ۔لا۔ کہتا ہے یعنی کون سا قانون کہتا ہے ۔خیر یہ تو حقیقی صحافی کے کبھی کسی مقام پر پھنس جانے میں بھرتنے والا حربہ تھا مگر آج کے دور میں زرد صحافت وہ بیماری ہے جو لوگوں کو غیر جانبدارصحافت سے متنفر کرکے یکطرفہ رائے مسلط کرتی ہے اور لوگ ماننے لگتے ہیںکہ صحافی تو ہوتے ہی بکائو مال یا کسی سرکاری ادارے میں رشوت وکرپشن کے حصے دارسہلولت کار۔۔۔ لوگوں کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ حقیقی صحافی ضمیر و وطن فروش نہیں ہوتاوہ ایسے کاموں پر فاقوں کو ترجیع دیتا ہے کئی گمنامی میں جا کر ایسی سختیوںکو سہہ رہے ہیں جو اولیا ء اللہ اور فقیروں درویشوں کو درپیش آتی ہیں صحافت فقط معاشرے کی عکاس ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسی فیصد سے زائدمیڈیا پر خود پسندسیاست گردش کر تی ہے اور دس فیصد کالم وہ بھی سیاست پہ جبکہ عوامی زہنوں کی ضرورت پر مبنی مواد آٹے میں نمک کے برابر۔
ادبی علمی تعلیم و تربیت صحت حقوق کے حصول میں معاون قوانین کی آگہی جیسے بہت سے موعوضات پر زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے میں چھوٹے اخبارات کو سلام پیش کرتا ہوں جو عام لکھاریوں کے لیے اپنے صفحے ہر وقت حاضر رکھتے ہیں یہی بڑے مقام پر پہنچنے کی دلیل ہوتی ہے جو پرنٹ میڈیا نے انٹرنیٹ کی سہولت سے استفادہ کیا ہے وہ بھی قابل داداور ضرورت وقت ہے تحریروں کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اخبارات کو بند کرنے یا اس کی اہمیت کو ختم کرنے کی بجائے اس کی فروخت بڑھانے پر حکمت عملی موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہیں ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button