غربت بجائے غریب مکائو پروگرام !
نگران حکومت نے ایک ماہ میں تیسری مرتبہ پیٹرول کے نرخ بڑھاکر بے حال عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرادیاہے،اس کی وجہ کوئی بھی رہی ہو ، یہ آئے روز بڑھتی مہنگائی اور بجلی ،پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے تنگ عوام شدید غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں ،جبکہ عوام کے دکھ درد کے مدائوئے کے دعوئیدار سیاسی قیادت کو اپنے حصول اقتدار کے بکھیڑوں سے ہی فرصت نہیں؎ ، عوام کیلئے کوئی آواز اُٹھا رہا ہے نہ ہی عوامی احتجاج کی قیادت کررہا ہے ، عوام کو ایک بار پھر بہلایا جارہا ہے کہ فلاں آئے گا تو ملک وعوام کی تقدریر بدل دیے گا ،جبکہ عوام جان چکے ہیں کہ آزمائی قیادت اُن کی تقدیر بدلنے نہیں ،مزید خراب کر نے ہی آئیں گے ۔
اس ملک کے اقتدار میں ہر کوئی بڑے بڑے دعوئوں اور وعدئوںکے ساتھ ہی آتے رہے ہیں ،مگر کسی نے بھی اپنے دعوئوں اور وعدئوں کو پوراکیا نہ ہی کبھی عوام کا سو چا ہے ،اُلٹا خود کو بنایا ، بچایا اور عوام کو قربانی کا بکرا بنا کر چلتا بنا ہے ،نگران حکومت بھی وہی کچھ کر رہی ہے ،بلکہ اسے لایا ہی اس لیے گیا ہے کہ وہ سب کچھ کر گزرے جوکہ پچھلے نہیں کر پائے ہیں ، ایک طرف نگران حکومت عوام مخالف ایجنڈے پر گامزن یک بعد دیگرے عوام پر مہنگائی بم گرائے جارہی ہے تو دوسری جانب یہ کہہ کر جان چھڑاتی رہتی ہے کہ ہمارے پاس مینڈیٹ ہی نہیں اور سارا ملبہ پچھلی حکومت پرڈال دیا جاتا ہے ، جبکہ اس کی کا بینہ پچھلی کا بینہ کے ہی لو گوں سے بھری پڑی ہے۔
اگر دیکھا جائے تونگران حکومت پچھلی حکومت کا ہی تسلسل ہے اور اس کی ہی پیر وی میں اپنی نااہلی کا سارا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی رویت دہرانے میں لگی ہے ، انہیں غریب عوام کو سزا دینے اور اپنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے لانی چاہئے،یہاں ہر کوئی غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کی صرف باتیں کرتا ہے، عام آدمی کی تنخواہ میں اضافے کی کوئی بات ہی نہیں کررہاہے، غریب سے سب کچھ چھینا جارہا ہے ،کوئی کچھ دینے کی بات ہی نہیں کررہا ہے ،غریب سے دو وقت کی روٹی چھین کر اسے بھوکا زندہ رہنے کے حق سے بھی محروم کیا جارہا ہے ، غربت مکائو کے بجائے غریب پروگرام چلایا جارہے، لیکن کوئی پو چھنے والا ہے نہ کوئی روک رہا ہے ،،یہ عوام مخالف گٹھ جوڑ اب کسی سے پو شیدہ نہیں رہا ہے۔
یہ سچی بات ہے کہ اس عوام مخالف گٹھ جوڑ کے باعث ہی غریب زندہ درگور ہوتے جارہے ہیں، لیکن ہوس اقتدار میں مبتلا لوگوں کوحصول اقتدار کی محاذ آرائی سے ہی فرصت نہیں ،اس اقتدار کی جنگ میں فریب سیاست آگے اور ریاست کہیںپیچھے رہ گئی ہے، ملک و قوم کیلئے کوئی سوچ رہا ہے نہ ہی بڑھتے اختلاف دور کرنے کی کوشش کررہا ہے ، کہنے کو سب ہی کہتے ہیں کہ اتفاق و اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے، مگر سب ہی اتحاد و اتفاق پارہ پارہ کرنے میں لگے ہیں،نگران وزیر اعظم بھی زبانی کلامی اتحاد و اتفاق کے ساتھ معاشی خود مختاری کی باتیں کرتے ہیں،لیکن مائنس فار مولے پر عمل پیراں اتحاد واتفاق کیسے لائیں گے اور بھاری قر ضوں میں جکڑے ملک میںمعاشی خود مختاری کہاں سے لائیں گے؟رہی سہی کسر نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں نے پوری کررکھی ہے ، جو کہ ملک و قوم کیلئے کبھی سو چتے ہی نہیں ، ہر وقت صرف اپنے ا پنے مفادات کو ہی دیکھتے رہتے ہیں۔
یہ ہمارے ملک و عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے اہل اقتدار کا تعلق اشرافیہ سے ہی رہا ہے، حکمران اشرافیہ کو کیا علم بیروزگاری اور مہنگائی کا غریب طبقات پر کیا اثر پڑتا ہے ، غریب کی زندگی فاقوں میں کیسے گزارتی ہے ؟ اگرغریب کی مشکلات کا اندازہ کر نا ہے تو غریب کے اندر جھانک کر دیکھیں ، غریب کے احتجاج کا حصہ بن کر دیکھیں ، غریب کے غم و غصے کا اندازہ لگا کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ غریب کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو تا جارہا ہے ، اس بدلتے حالات کے پیش نظرحکمران اشرافیہ کو چاہئے کہ آمدن بڑھانے کے متبادل وسائل کا بندوبست کرے، نہ کہ بجلی ،گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پے در پے اضافہ کر کے عوام پر بوجھ ڈالا جاتا رہے ،عوام کب تک غربت مکائو کے بجائے غریب مکائو پروگرام برداشت کرتے رہیں گے ، اگر حکمران اشرافیہ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے عوام میں بڑھتے اضطراب کا فوری سد باب نہ کیا تو یہ غبارہ جو پہلے ہی بڑی حد تک پھول چکا ہے ، پھٹ بھی سکتا ہے ۔