لال بجھکڑ
لال بجھکڑکوئی تصوراتی کردار یا نقطہ نظر کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا نام نہاد تصور ہے جس کا کوئی ایک رنگ بھی کسی ادارے،خاندان،ریاست و سیاست میں شامل ہو جائے تو سمجھ جائیں بربادی کا نقطہ آغاز ہو چکا۔لال بجھکڑ کا کسی جگہ میں وجود ہونا ایسا ہی جیسے کہ کسی کھنڈر محل میں الو کا ہونا۔گویا دونوں جس جگہ پائے جائیں تباہی وبربادی تو ہوگی ہی منحوسیت بھی چل کر وہاں آجاتی ہے۔کہتے ہیں کہ کسی ایسی بستی میں جہاں کبھی ہاتھی کا گزر نہیں ہوا تھا۔اتفاق سے اس بستی سے رات کے اندھیرے میں ہاتھیوںکے غول کا گزر ہوا۔صبح سویرے جب اس بستی کے لوگ کھیتی باڑی کے لئے اپنے اپنے کھیتوں میں جانے لگے تو انہوں نے ہاتھیوں کے بڑے بڑے پائوں کے نشانات دیکھے،چونکہ وہ لوگ اس سے قبل ایسے بڑے پائوں کے نشانات نہیں دیکھ پائے تھے تو انہوں نے شور مچا دیا کہ رات کو شائد بلائوں کا یہاں سے گزر ہوا ہوگا۔پرشانی کے عالم میں لوگ اس بستی میں موجود میں لال بجھکڑ کے پاس اپنی پریشانی لے کر چلے گئے۔لوگوں نے سارا ماجرا جب لال بجھکڑ کو سنایا تو اس نے جائے وقوعہ دیکھنے کی فرمائش کر ڈالی۔اب لوگوں کا ایک ہجوم اور اس ہجوم کے درمیان میں میاں لال بجھکڑ اپنی شان وشوکت سے تشریف لے جارہے تھے۔جب نشانات والی جگہ پہنچے تو لال بجھکڑ نے نشان دیکھتے ہی مسکراتے ہوئے کہا کہ نالائقو،پریشانی والی بات نہیں ہے رات کو یہاں سے ہرن کے غول کا گزر ہوا ہے ی نشانات ان کے پائوں کے ہیں۔جب لوگوں نے کہا کہ حضور ہرن کے پائوں تو چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں جبکہ یہ نشانات تو بہت بڑے ہیں۔ذرہ بھر بھی پریشان ہوئے بغیر میاں لال بجھکڑ فرمانے لگے کہ تھے تو وہ ہرن ہی لیکن انہوں نے اپنے پائوں کے نیچے پیتل کے تھال باندھ رکھے تھے کہ کہیں کوئی آدم ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کا شکار نہ کرنے آجائیں،ساتھ ہی پہلے مسکرانااور پھر رونا شروع کردیا۔لوگوں نے پوچھا کہ جناب آپ مسکرائے اور پھر روئے کیوں؟تو لال بجھکڑ نے جواب دیا کہ مسکرایا میں اس لئے تھا کہ تم لوگ اتنے نالائق ہو کہ ایک چھوٹی سے بات کے لئے مجھے تکلیف دی اور رویا اس لئے کہ جب میں مر جائوں گا تو ایسے فیصلے کون کیا کرے گا۔
یقین جانئے ایسے لال بجھکڑ آپ کے ارد گرد ہر سو ڈھونڈے بنا ہی مل جائیں گے۔ایسے کردار ہر گھر،دفتر،ادارے،مکتبہ فکر،حلقہ ارباب اور اربا ب اختیار و اقتدار کے آس پاس کثرت میں مل جائیں گے۔ایسے ہی ایک ملک پر ایک لال بجھکڑ کو حکومت مل گئی،ظاہر ہے کہ امور مملکت احسن طریقے سے چلانااس کے بس کی بات نہیں تھی۔سب سے پہلا جو غلط کام اس سے سرزد ہوا وہ یہ تھا کہ اس نے ایک بڑے پراجیکٹ کی فائل بنا کمیشن کے دستخط کردی۔جناب کو پتہ تب چلا جب دفتر کے ایک چپڑاسی نے آکر اپنا حصہ مانگا،کہ صاحب میرا حصہ،لال صاحب نے پریشانی میں پوچھا کہ کس بات کا حصہ،جس پر چپڑاسی بولا کہ صاحب جو فائل آج آپ نے دستخط کی ہے اس پر تو دس فی صد کے حساب سے آپ کا اور اس میں سے میرا اتنا حصہ بنتا ہے۔اب صاحب پریشان ہوئے اور چپڑاسی سے پوچھا کہ اب کیا کریں کیونکہ میں نے تو بنا پیسے لئے ہی فائل دستخط کر دی ہے۔دفتر کا چپڑاسی بولا کہ سر اس میں پریشانی کیا ہے فائل واپس منگوائیں ،اور اس پر جہاں لکھا ہے،sanctioned بس اس سے قبل لکھ دیںnot ،محترم نے ایسا ہی کیا۔اب ظاہر ہے جس لوگوں نے شلواریں پہننی ہوتی ہیں وہ راستہ بھی رکھتے ہیں۔ٹھیکیدار فورا سمجھ گیا کہ مسئلہ کیا ہے۔ٹھیکیدار نے اسی دن فائل کو پہئے لگائے اور دوبارہ صاحب کے دفتر پہنچ گیا،اب مسئلہ پھر وہی کہ جس فائل پرnot sanctioned لکھ دیا گیا ہے اسے کیسے بدلا جائے۔چپڑاسی کو بلایا گیا اور پوچھا گیا کہ اب اس مسئلہ کا کیا حل ہے تواس نے زیرلب منافقانہ ہنسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سر اب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔بس اب آپnot کی جگہ لکھ دیں note sanctioned اس کا کیا مقصد ہوگا،صاحب نے جاننے کی کوشش کی۔چپڑاسی ایک بار پھر مسکراتے ہوئے گویا ہوا کہ سر چھوڑئیے اس کے مطلب کو اب جس کے پاس بھی فائل جائے گی اسے خود ہی پتہ چل جائے گا کہ ’’نوٹ‘‘ہو گیا ہے۔لیکن
صاحب نے فائل ایک طرف رکھتے ہوئے چپڑاسی سے ہوچھا کہ آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن یہ بتائو کہ تم اتنا مسکرا کیوں رہے ہو،تو اس نے جواب دیا کہ سر آپ تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن دفتر تو ہم لوگ ہی چلاتے ہیں۔میں مسکرا اس لئے رہا ہوں کہ اگر دفتر میں’’میں‘‘ نہ ہوتا توآپ لوگوں کا کیا بنتا۔یقین جانئے ہر لال بجھکڑ کا یہی خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ادارے کا کیا بنے۔میری رائے یہ ہے کہ ایسے لال بجھکڑوں سے بچا جائے وگرنہ آپ کا وہی حال ہوگا جو اسوقت ہمارے ملک کا ہے۔ہر’’لال بجھکڑ‘‘سمجھتا ہے کہ میں نہ ہوتا تو ملک کیسے چلتا۔حالانکہ ملک پاکستان چلانے کے لئے کسی نظام،اصول یا آئین کی ضرورت نہیں ہے یہ ایک سہارہ یعنی قدرت کے سہارے اور ایک اصول گویا عوام کی ٹیکسز کی مد میں ’’لال‘‘کرکے۔لال بجھکڑ جب تک اپنے ہاتھوں عوام الناس کی لال نہیں کر لیتا اسے سکھ کا سانس اور سکون کی گھڑی میسر آہی نہیں سکتی۔اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ذہنی غلامانہ سوچ کے متحمل عوام اپنے آئینی و قانونی حق کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کریں گے۔یہ تیاری ایسے ہو جیسے روزانہ کی بنیاد پر کوئی بچہ سکول جاتا ہے یا مزدور اپنے رزق کی تلاش میں قریہ و قریہ۔اس سارے عمل میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے درمیان آتی ہے وہ ہے عوام کی سیاسی تربیت،علم کی کمی اور اپنے آئینی حق کے حصول سے لاعلمی۔لہذا اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو لا علم نہ رہئے بلکہ لال بجھکڑوں سے بچنے کے طریقے سہکھتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہو جائیں۔ان شااللہ ملک اور عوام کی تقدیر بدل جائے گی۔