تم بدلو گے تو حالات بدلیں گے!

ملک میں بروقت انتخابات کا انعقاد مبہم کا شکار ہے ،الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دیے رہا ہے نہ ہی صد ر مملکت کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ دینے کی کوئی تجویزمان رہا ہے، عام انتخابات کے اعلان میں پیچیدگی کی وجہ بظاہر اَ نا کی جنگ لگتی ہے ،ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ صوررتحال اس نہج پر پہنچے ،جبکہ آئین بالکل واضح ہے کہ وقت سے پہلے اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں عام انتخابات نوے روز میں کرانے ہیں ،اگر آئین کہتا ہے کہ عام انتخابات نوے روز میں ہی ہونے چاہئے تو اسے قبول کر نے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو نے چاہئے ،لیکن یہاں مختلف تو جہات کی آڑ لے کر آئین سے سر عام انحراف کیا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کی حکمران اشرافیہ نے افسر شاہی سے مل کرآئین کو پس پشت ڈال رکھا ہے،اس وقت طاقت کے ذریعے حاصل ہونے والی حکومت ہی نہ صرف فیصلہ کن اختیار رکھتی ہے، بلکہ اس کا ببانگ دہل اظہار بھی کرتی ہے، حالاں کہ اس طبقے کو ریاست کے ستون کی بھی حیثیت حاصل نہیں ،کیو نکہ افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے تمام ادارے ؎ منتخب حکومت کے ہی احکامات کے پابند ہیں،یہ قوم کے آقا نہیں، ملازم ہیں، لیکن انہوں نے آئین کو بالادستی نہ ہو نے کے باعث فیصلہ سازی کا منصب بھی حاصل کر لیا ہے،یہ ایک طرف عوام مخالف فیصلے کررہے ہیں تو دوسری جانب اپنی من منشاء کے مطابق آئین کی تشر یحات کررہے ہیں ، انہیں کوئی ٹوک رہا ہے نہ ہی روک رہا ہے ، کیو نکہ یہ اپنے خلاف ہو نے والی ہر مزحمت اور اُٹھنے والی ہر آواز کو بزور طاقت دبائے چلے جارہے ہیں۔
اس وقت دیکھا جائے تو پا کستان میں جبر کی موجودگی میں ایسی حکمرانی مسلط ہوچکی ہے کہ جس کے خلاف مزاحمت کرنے والا کوئی نہیں ، سیاسی جماعتیں بھی غیر موثر نمائشی بیانات سے آگے بڑھنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،ملک میں ایک طرف سیاسی جبر تودوسری طرف مہنگائی کے سیلاب و روزگار کے فقدان نے عوام کو ایسے بلائے عظیم میں مبتلا کر دیاہے کہ جس سے نکلنا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے، یہ حالات ایک حقیقی سیاسی تحریک کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن سیاسی جماعتیں سیاسی تحریک چلانا تو در کنار، آئین کے مطابق انتخابات سے بھی راہ فرار اختیار کررہی ہیں، غاصبانہ حکومت قائم کرنے والے مقتدر عناصر کو بھی ناپسندیدہ انتخابی نتائج کا اندیشہ ہے، اس لیے نگر ان حکومت بھی اپنی مدت کے تعین کا اعلان کرنے سے گریز کررہی ہے،
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار عدلیہ کی تحریک میں کامیابی کے بعد دعویٰ کیا گیا تھا کہ عدلیہ اور مقردر حلقوں کا گٹھ جوہو گا نہ ہی ماورائے آئین کسی اقدام کو قانونی جواز دیا جائے گا، اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ سیاست دانوں کی تمام کمزوریوں کے اعتراف کے باوجود حکومتوں کے قیام اور خاتمے کا فیصلہ پاکستان کے عوام بذریعہ انتخاب ہی کیاکریں گے، اس تبدیلی کے بعد عدالتی فعالیت کا منظر قوم نے دیکھا، لیکن افسوس کہ عدلیہ کی ساکھ گزرتے وقت کے ساتھ مجروح ہوئی ہے، اس وقت کسی بھی ریاستی ادارے کو کسی بھی قانون اور ضابطے کا پابند بنانے والا نظام احتساب کہیں موجود نہیں ، اب دعویٰ کیا جارہا ہے کہ کرپٹ مافیاز سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، لیکن ان دعوئوں کوئی جان نہیں،سب جانتے ہیں کہ اس مہم جوئی کا اپنی تشہیر کے علاوہ کوئی مقصد ہے نہ ہی مہم جوئی کا میاب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بر وقت عام انتخابات کے ذریعے ایسے عوام دوست لوگ آگے لائے جائیں ،جو کہ عوام دشمن معاہدوں کو مسترد کرتے ہوئے قوم کو اقتصادی غلامی کے شکنجے سے آزاد کرائیں، اس مشکل سے مشکل تر ہوتی زندگی سے عوام تنگ آچکے ہین ،عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو تا جارہا ہے ، آج عوام ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں ،کل حکمرانوں کے بھی گریباں پکڑیں گے ، اس سے قبل کہ صورتحال قابو سے باہر ہو جائے ، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کو مل کر نہ صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر نا چاہئے ،بلکہ سب کو یکساں لیول پلینگ فیلڈ بھی مہیا کر نی چاہئے ،یہ تاثر سامنے نہیں آنا چاہئے کہ کسی جماعت کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے ، کیا الیکشن کمیشن اور نگران حکو مت ایسا ساز گار انتخابی ماحول دیے پائیں گے ؟یہ اُن کی ذمہ داری ہے اور وہ ایسا کر سکتے ہیں ،لیکن انہیں ایسا کر نے کا اشارہ بھی ملنا چاہئے ، اگر سچ میں ملک کو بدلنے کی کوئی خواہش رکھتا ہے تو اُسے پہلے خود کو بدلنا ہو گا ،اپنی سوچ اور اپنے اشارے بدلنا ہوں گے ، تم بد لو گے تو حالات بد لیں گے ،ورنہ کچھ بھی نہیں بدلے گا ،سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button