چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ۔۔۔ تحریر: شازیہ کاسی ایڈووکیٹ

گزشتہ دنوں جو کچھ مادر وطن نے دیکھا۔ اور جو کچھ اس دھرتی ماں کے ساتھ ہوا اس کی مثال گزشتہ 75 سال کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ طاقت کے ایوان جن میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا اس پر لاٹھی سے لیکر گولی چل گئ اور اس مادر وطن کا چہرہ آگ و خون میں نہلا دیا گیا۔ مہذب دنیا نے جب اس دنیا کو چلانے کا طریقہ وضع کیا تو اس کے قواعد و ضوابط طے کئے گئے۔ چاہے وہ جمہوریت ہو، ملوکیت ہو، یا پھر مارشل لاء ہی کیوں نہ ہو۔ ان تمام طرز حکومتوں میں ایک قاعدہ بنیادی اساس تھا۔

جدید دنیا میں کوئی بھی حکومت ہو اس کے لئے ایک ضابطہ یعنی آئین بنیادی چیز ہوگی اس کے تحت ادارے اور ان کی حدود و قیود کا تعین کیا گیا۔ یعنی کچھ لوگ صرف سیاست یعنی حکومت کو چلائیں گے ، کچھ لوگ اس حکومت کے ماتحت آئین کے تحت دی گئ ذمہ داریاں نبھائیں گے مثال کے طور پر عدالت ہوگی ، انتظامیہ ہوگی اور مقننہ ہوگی اور وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر تویض شدہ کام کریں گی۔ ان کی تنخواہ، انکے اخراجات حکومت کی زمہ داری ہوگی اور اس کی ادائیگی حکومت کرے گی اور حکومت عوام کے ووٹ کے ذریعے سیاسی جماعتیں ہی کریں گی۔ گویا ریاست کے انتظام و انصرام میں یہ تمام ادارے معاون و مددگار تو ضرور ہونگے مگر سیاست میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو رہے گا۔ یہ ایک آئیڈیل ریاست کی تصویر ضرور ہوسکتی ہے مگر جدید دنیا میں 19 /20 کے فرق کے ساتھ حکومتیں قائم رہتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس طرز حکومت یعنی جمہوریت کا فروغ اس طرح سے نہیں ہو سکا۔ جس کی وجہ سے سماجی نا انصافیوں نے عوام کو ان تمام ثمرات سے محروم رکھا اور یہ احساس محرومی بےروزگاری، غربت نا انصافی اور انسانی حقوق کی پامالی کی صورت میں عوام کو ملتا رہا۔ بہرحال اس کی وجہ فوج کا سیاست میں غیر آئینی عمل و دخل ہی رہا اور اس ملک کو ایک تجربہ گاہ بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی فوجی حکومت بھی اپنے ایک ضابطہ کے تحت چلتی رہی ہے۔ اس سے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ مگر طاقت ایک جگہ پر مرکوز تھی۔ اگر اداروں میں کوئی بھی فریق اختیارات سے تجاوز کرتا تھا تو ایک ثالث کے طور پر ایک ادارہ ایسا ضرور موجود تھا جو اپنے نظم و ضبط کے باعث تمام فریقین کے مابین کوئی تصفیہ کرا سکتا تھا۔ جہاں طاقت کا ارتکاز تھا۔

اس تمہید کا مقصد ہرگز یہ باور کرانا نہیں ہے کہ آپ ان تمام باتوں سے ناواقف ہیں بلکہ موجودہ صورتحال میں اس طاقت کے ایوان میں نظم و ظبط کا فقدان، اداروں کا باہمی ٹکراؤ، فوج کا سیاست میں دخل اندازی کرنا، عدلیہ کا سیاست کرنا، انتظامیہ میں نظم و ضبط کا فقدان۔ جبکہ ریاست کی اساس اس بنیاد پر رکھی گئ تھی کے سیاست سیاست دان کریں گے اور ماتحت ادارے اپنے قوانین کے مطابق آئینی حدود میں ہی رہیں گے۔ اب سیاست میں اداراجاتی سیاسی عمل دخل نے طاقت کے کئ مراکز بنا دئیے۔ اب ہر ادارہ خود کو حکومت یا ریاست کا سرخیل سمجھتا ہے۔ اور جو جس ادارے کا فرائض منصبی تھا اس سے ہٹ کر نظام حکومت میں بگاڑ کا سبب بن گیا۔

اب اس تناظر میں موجودہ حالات کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکومت کی گرفت اور فوج کی کمانڈ بظاہر under attack نظر آتی ہے۔ جس طرح ایک سیاسی جماعت ہر قانون کو پاؤں تلے روندتی چلی جا رہی ہے اور دوسری طرف عدلیہ جس طرح اس کے ہر عمل کو گویا قانون کا درجہ دیتے ہوئے نظر انداز کر تی جا رہی ہے اور خاص طور پر سیاسی دہشت گردی کو فروغ دیتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے جس طرح قومی سلامتی کے اداروں کو سبق سکھانے پر تلی ہوئ ہے اس سے ملکی سلامتی اور ملک میں سیاسی استحکام اور ملکی معیشت سب خطرے میں ہیں۔ "سب کو سبھی سے خطرہ ہے ” گزشتہ کئی دہائیوں سے طاقت کی لڑائی مختلف طاقت ور طبقات کےدرمیان ہی تھی مگر ان دنوں جو کچھ وطن عزیز میں ہوا ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ ان 20 فیصدی طاقت ور خاندانوں کے گھروں میں وہ متوسط طبقہ کام کرتا ہے جو دولت اور طاقت کے ارتکاز کے باعث محرومی کا شکار رہا ہے۔ جو دنگے و فساد ملک میں ہوئے اس کے بعد سزا و جزا کے عمل جس مصلحت کی بھینٹ چڑھا اس نے اس محروم طبقہ کو ایک نئی راہ دکھائی ہے۔
"چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ”
سوچئے اگر آپ کے گھروں میں، دفاتر میں، فیکٹریوں اور ملوں میں کام کرنے والے لوگ جو کہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ان ہی لوگوں نے آپ کے گھروں اور دفتروں اور ملوں فیکٹریوں کو آگ لگا دی وہی لوٹ مار کی جو مخصوص تنصیبات پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی واردات کو جس طرح عدلیہ نے تحفظ دیا اور جس طرح ایک جماعت کو حفاظتی ضمانتیں تھوک کے حساب سے عطا فرمائی ہیں اس کا نتیجہ سوائے انارکی اور فساد کے کچھ نہیں۔ جس طرح عدلیہ نے از خود نوٹس جو کہ مفاد عامہ کے لئے ہی آئین میں لکھا ہے نہ کہ سیاسی مقدمات کے لئے۔ جس طرح کے ملک میں حالات 9 مئ کو وقوع پذیر ہوئے اور ایک ادارے کی تنصیبات، ریاست کے ادارے پولیس اسٹیشن، ریڈیو پاکستان پشاور، اسکول، اسپتال جلا کر بھسم کئے گئے عام آدمی کو جن دشواریوں سے گزرنا پڑا ان کی جان کو خطرہ سے دوچار ہونا پڑا آرٹیکل 184 (3) ان حالات میں ہی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ملک میں نقص امن ہو اور مفاد عامہ کے خلاف واقعات رونما ہو رہے ہوں۔ اگرچہ اس وقت سپریم کورٹ پروسیجر و رولز ایکٹ ملک میں نافذ العمل ہے مگر چیف جسٹس صاحب نے اس پر غیر آئینی طور پر سسپینڈ کیا ہوا ہے تو پھر "از خود نوٹس ” کیوں نہیں لیا گیا؟ ؟؟؟ اور اگر مذکورہ قانون نافذ العمل ہے تو عمران خان کے مقدمے کی سماعت کے لئے بینچ کی تشکیل غیر قانونی ہے؟؟؟؟ کیوں کہ اس قانون کے تحت تین رکنی ججز کی کمیٹی نے طے کرنا تھا کہ اس بینچ میں کون سے ججز سماعت کریں گے۔کور کمانڈر لاہور کے گھر پر جس طرح بلوائیوں نے حملہ کیا لوٹ مار کی گئ آگ لگائی گئی شنید ہے کہ ان کی فیملی بھی عمران کرش کا شکار تھی جس طرح آپ کی مدر ان لاء اور آپکی اہلیہ۔ مگر اس سیاسی جماعت کے ورکرز نے اس بات کا بھی لحاظ نہیں کیا اور ان کے گھر کی خواتین کے زیر جامہ کو جس طرح سربازار لہرایا وہ آپ کی بھی ہو سکتے ہیں۔ ہٹلر کو بھی عدالتوں نے اسی طرح سے سپورٹ کیا تھا وہ بھی اس وقت تک اسمبلیوں کو توڑتا رہا جب تک اس نے مطلوبہ اوسط کی حکومت حاصل نہیں کر لی۔ مگر جب اس نے اقتدار حاصل کر لیا اسکے بعد اس نے ہر اس شخص کو جو جو اس کا معاون رہا بالخصوص ججز کو اس کو تہہ تیغ کیا بلکہ مارنے سے پہلے ان کے زندہ جسموں سے کھال نکلوائی تھی۔ ایک تاریخی حوالہ ہے یادداشت کے لئے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button