پارلیمنٹ بمقابلہ عدلیہ ۔۔۔ تحریر: شازیہ کاسی ایڈووکیٹ

2020 یا 21 کے اوائل میں ایک کالم تحریر کیا تھا ۔ جس وقت پارلیمنٹ اور اس عوامی نمائندے چنیدہ احتساب و انصاف کے تحت نا اہل کئے جا رہےتھے۔ اس وقت میں نے لکھا تھا کہ نظام کی تبدیلی کے لئے وکلاء تنظیموں کو ایک بار پھر آمنے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ اور آج کی پاکستان بار کونسل کی ہڑتال اس بات کی تصدیق کر رہی ہے۔ 2007 کی وکلاء تحریک میں ایک سبق تھا وکلاء کے لئے۔ تب بھی بڑے گھر کے بڑوں کا مسئلہ تھا۔ آج بھی وہی جھگڑا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہ تحریک ایک جج کے لئے تھی آج دو اداروں کے درمیان جا ری ہے۔ اور یہ سب محکمہ زراعت کے اندر بیٹھے آئن سٹائن کے تجربات کا نتیجہ ہے۔

آئین کے اندر 19 ویں ترمیم کر کے سپریم کورٹ نے ججز کی تقرری کے تمام اختیارات ایک عظیم جج نے پارلیمنٹ سے لیکر اپنے پاس رکھ لئے تھے۔ اسی کے نتائج آج خود پارلیمنٹ اور اس میں بیٹھے عوامی نمائندے بھگت رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہوا کہ سیاستدانوں کو پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے اور آئین کی سر بلندی کے لئے مواقع نہیں ملے۔ مگر جس نظام کے تحت یہ ملک چل رہا ہے۔ اس میں حکومت سیاستدانوں کی ہوتی ہے اور اختیارات ریاست کے ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار سیاستدان بھی ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بجائے "اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ” ۔ جس نے ہمیشہ ان کو اپنے اختیارات کے لئے استعمال کیا۔ کل کی بینچ کی تشکیل سے لوگوں کو اندازہ خوب ہے کہ عدلیہ کیا فیصلہ کرنے کی تمنا رکھتی ہے۔ یعنی ایک اور "نا اہلی ” وار اس بار بھی پارلیمنٹ پر ہوگا۔ عوامی نمائندوں پر ہوگا۔ اس سے ملک میں سیاسی، معاشی بحران مزید گہرا ہوگا۔ اس ملک کے دستور اور آئین کا حلیہ جس قدر عدلیہ نے خود بگاڑا ہے اتنا سیاستدانوں یا پارلیمنٹ نے نہیں۔ عدلیہ ہمیشہ سے محکمہ زراعت کی سہولت کاری کرتی رہی ہے۔”شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے” ضیاء الحق کے مارشل لاء سے لیکر مشرف کے مارشل لاء تک۔ اور اس کے بعد صدارتی نظام کا دیرینہ خواب جو جنرل حمید گل سے لیکر پاشا؛ ظہیر الاسلام مشرف تک آئین کی تشریح اور نظریہ ضرورت کی آڑ میں جو فصل محکمہ زراعت نے بوئی تھی اسکی کٹائی جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید نے عمران خان کی صورت میں کرنی شروع کر دی ہے۔ جس کے ثمرات عام عوام تک۔ طالبان کی صورت میں تو کبھی معیشت کی بربادی اور ملک میں سیاسی بحران کی صورت میں پہنچ رہے ہیں۔

ملک کا اخلاقی۔ سیاسی معاشرتی اور معاشی دیوالیہ نکل چکا ہے مگر تمام ادارے اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر دوسرے ادارے کے اختیارات سلب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عدلیہ نہ صرف سیاسی بلکہ انتظامی اور پارلیمانی اختیارات کو سبو تاژ کر رہی ہے۔ اور سوائے انصاف کرنے کے سب کام کر رہی ہے۔ جو کہ اس کا اصلی کام ہے۔ کل دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے عدالتی فیصلے کی صورت میں۔ ایک بار پھر ایک "وزیراعظم ” نا اہل ہوتا ہے یا "چیف جسٹس آف پاکستان” ہر دو صورتوں میں ملک میں انارکی اور سیاسی انتشار بڑھے گا۔ اور عام عوام بجلی گیس کے بلوں؛ پیٹرول کی قیمتوں اور ہوشربا مہنگائی کی چکی میں مزید پستے رہیں گے۔ ملک میں لاقانونیت کی انتہا ہو چکی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی؛ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور مذہبی فرقہ واریت بڑھتی جا رہی ہے مگر عدالتی نظام اور انصاف منجمد ہو چکا ہے۔ الیکشن ہونگے یا نہیں۔ آئین 90 دن میں ہونگے اس کے علاوہ آئین کی کوئی شق عدلیہ کو یاد نہیں۔ انصاف کا نظام سے عوام مایوس ہو چکے ہیں اور سائلین جب عدالتوں میں اپنے مقدمات میں پیش ہونے آتے ہیں تو عدالت اور انصاف "STRIKE” پر ہوتا ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button