موہے آئی نہ جگ سے لاج! تحریر: شازیہ کاسی ایڈووکیٹ

4 اپریل ہے ایک عوامی نمائندے کا جوڈیشل مرڈر ہوا اور آج کے دن ایک "محفوظ ترین” فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے سنا دیا۔ سپریم کورٹ نے بیک وقت الیکشن؛ کمیشن پارلیمنٹ؛ اور انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات کا بے دریغ اور بے دردی سے استعمال کرتے ہوئے اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل گئ۔ آج 4 اپریل کو دستور پاکستان کی تدفین کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ "سنجیاں ہوں جانڑ گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے”۔ سپریم کورٹ نے آئین کو 90 دن میں الیکشن کروانے تک یاد کیا اور اس پر بھی قائم نہ رہتے ہوئے نہ صرف یہ کہ الیکشن کی تاریخ دے دی بلکہ الیکشن کا پورا شیڈول بھی دے دیا۔ یعنی 90 دن میں الیکشن نہیں ہو رہے۔ اور "صدر” کی دی ہوئی تاریخ کو بحال کردیا۔ جناب عالی علوی نے الیکشن کمیشن سے مشاورت نہیں کی تھی بلکہ اس نے ایک ملاقات کو مشاورت کا رنگ دیا تھا اور پھر عالی جناب نے علوی جناب کی بات مان لی۔ جان کی امان پاتے ہوئے عرض ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس کا ایک آئین ہے صدر تاریخ نہیں دیتا جناب ملک میں صدارتی طرز حکمرانی نہیں ہے بلکہ پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ اس ملک کے آئین کے ایک آرٹیکل کا سہارا لیتے ہوئے آپ نے آج کا فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ حکومت کو بائی پاس کرتے ہوئے وزارت خزانہ اور دفاع کو ہدایات بھی جاری کر دیں۔ دستور پاکستان میں عدالت عظمی کو یہ اختیار نہیں ہے۔90 دن میں الیکشن صرف پنجاب میں نہیں بلکہ کے پی کے جو کہ اسی ملک کا ایک صوبہ ہے اس میں فیصلہ میں لکھا گیا ہے کہ "متعلقہ فورم” یعنی پشاور ہائی کورٹ سے ر جوع کیا جائے ۔ یہی استدعا حکومت نے بھی کی تھی جب کہ پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن سے متعلق درخواستوں پر سیاسی جماعتوں نے رجوع کیا ہوا تھا۔ تو کیا کے پی کے میں اس ملک کا دستور لاگو نہیں ہوتا یا اس کی عملداری اس صوبہ میں معطل ہے؟ آ ج کا فیصلہ کسی کی یا کچھ لوگوں کی خواہشات پر مبنی تو ہو سکتا ہے لیکن آئین اور قانون کی نظر میں بے انتہا متنازعہ فیصلہ ہے۔ آج کا عدالتی فیصلہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ ملک کے طول وعرض میں لارجر بینچ کی تشکیل کی دہائیاں دی گئیں مگر انا کا معاملہ بن گیا۔ آج کا فیصلہ "Re-Writing of Constitution ” ہے ملک میں سیاسی بحران کی ابتداء ایسے ہی ایک فیصلہ کے ذریعے ہوئی تھی جب پنجاب میں ایک سیاسی جماعت کی عددی اکثریت کو کم کرنے کے لئے اراکین اسمبلی کے ووٹ کو گنا بھی نہیں گیا اور ان کو نا اہل بھی کر دیا گیا۔ جبکہ یہ فیصلہ عدالت کے اپنے ہی ایک فیصلہ سے متصادم تھا۔ عدالت عظمی میں out of turn appointment کے ثمرات آج 6 رکنی بینچ کی صورت میں نظر آئے اس پہ طرفہ تماشا کے 6 رکنی بینچ کی تشکیل حالانکہ ہمیشہ طاق عدد میں بینچ تشکیل پاتی ہے خیر جب "مرزا اکیلا ہی مالک و مختار ہو تو اسکی عدالت اس کی مرضی "۔ عدالت میں یہ تقسیم ملک میں ایک دفعہ پھر 1999 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ یا کوشش کی جا رہی ہے کہ حالات اسی طرف لے جائے جائیں۔ جب آرمی کو مارشل لاء لگانے کی درخواست کی تھی تو اس وقت کے سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ نے معذرت کر لی تھی۔ پھر صدر فاروق لغاری اور عدالت عظمی کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب ایک طرف تھے اسی عدالت میں دو رجسٹرار دو کاز لسٹ جاری ہوتی تھیں دو چیف جسٹس تھے۔ اور ایک جماعت کے کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا تھا جو کہ انتہائی قابل مذمت تھا اور ہے۔ ملکی انتظامی معاملات میں مداخلت جس موڑ پر حالات کو لے آئی ہے اس میں ملک میں انارکی سیاسی عدم استحکام معاشی بحران اور انسانی حقوق کی پامالی کا اندیشہ بہت شدید ہوتا جارہا ہے ۔ صاحب اختیار لوگ صاحب ادراک بھی ہیں۔ ان سب کو احتیاط اور تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے یہ نہ ہو کہ یہ ملک کسی ایسے المیے کا شکار ہو جس سے اس ملک کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ کیونکہ ملک اس وقت جس قسم کی تقسیم کا شکار ہے جو کسی بڑے سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ہے فیصلہ خود باعث توہین عدالت
کچھ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button