چھوٹے صوبوں کے بڑے جج ! تحریر:شازیہ تسلیم کاسی

آج پھر ایک بار سپریم کورٹ کی بینچ ٹوٹ گئی۔ وجہ وہ شکوہ تھا جو جسٹس مندوخیل صاحب کے اختلافی نوٹ کو فیصلے کا حصہ نہ بنانا تھا۔اس سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس امین الدین کا فیصلہ تھا جو کے ازخود نوٹس کیس سے متعلق تھا اور ایسے تمام مقدمات کو موقوف کیا تھا جب تک کہ سپریم کورٹ پروسیجر اور رول ایکٹ پاس نہیں ہو جاتا۔ اور اس آرڈر کو چیف جسٹس صاحب کے کہنے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کے سرکولر کے ذریعے بائ پاس کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ غلط ہے اسکی کوئی حیثیت بھی نہیں کورٹ کا آرڈر اس سے اوپر ہوتا ہے۔اس کے باوجود چیف صاحب نے چار رکنی بینچ کے ساتھ اس از خود نوٹس مقدمے کی سماعت کی۔ جسٹس یحی آفریدی بھی اختلافی فیصلہ دے چکے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے بینچ سے معذرت کرلی۔ازخود نوٹس دو اسمبلیوں میں الیکشن کرانے سے متعلق تھا اور متعلقہ صوبوں کے ہائی کورٹ میں یہ پٹیشنز پہلے سے ہی زیر سماعت تھیں۔ لہذا سپریم کورٹ نے اپنی عدالتی حدود کو کراس کرتے ہوئے ایک تبادلہ کی پٹیشن میں الیکشن کمیشن کو دو جج صاحبان کے نوٹ پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نوے دن میں الیکشن کرانے کا متنازعہ فیصلہ سنا دیا جبکہ اس بینچ کے معزز جج صاحبان کی اکثریت نے اس سے اختلاف کیا۔آج چیف صاحب نے دو متنازعہ جج صاحبان کو بینچ کا حصہ بنایا جن میں سے ایک کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس داخل ہو چکا ہے۔ وہ جج صاحب مسلسل ہر آئینی اور حساس مقدمات کا حصہ ہوتے ہیں۔ چیف صاحب نے آج یہ بھی باور کروایا کہ وہ اپنے ساتھی جج صاحبان کے ساتھ ہیں۔یہ کون سے جج صاحبان ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی پر جب اس طرح کے الزامات لگے تھے تو ان کو تمام مقدمات سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ ان کی فیملی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن آج بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جسٹس فائز عیسی کے اثاثے کی تفصیل ہے کسی اور جج کی نہیں۔مندرجہ بالا جن جج صاحبان کا ذکر کیا گیا ہے ان میں جسٹس مندوخیل صوبہ بلوچستان سے۔جسٹس یحیئ آفریدی کے پی کے اور سب سے زیادہ ridicule میرے صوبہ سندھ کے چیف جسٹس علی احمد شیخ صاحب کو کیا گیا۔ چیف جسٹس بندیال صاحب منٹس آف جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ان کے رپورٹڈ ججمنٹس کے بارے میں سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ خود جتنے بھی متنازعہ آرڈر پاس کئے ہیں ان کا تفصیلی فیصلہ انہوں نے نہیں لکھا۔یہ صورتحال جہاں سپریم کورٹ کے سیاسی ہونے کی طرف توجہ دلاتی ہے وہیں اس میں لسانی تقسیم بھی دکھائی دیتی ہے۔ کیوں جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کو اپنے خاندان کے اثاثوں تک کے لئے صفائی دینی پڑی۔ مگر جسٹس مظاہر علی نقوی کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیق کی بجائے ان کو ہر حساس نوعیت کے مقدمات میں شامل کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہ تقسیم ہے جس نے ایک بار پھر ڈومیسائل کے فرق کو گہرا اور واضح کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں قاضی فائز عیسی صاحب کو بطور چیف جسٹس بہت مشکلات کا سامنا ہے۔
رہبروں کا رہزنوں سے رابطہ مضبوط ہے
لٹ گیا میرا وطن اور فیصلہ محفوظ ہے

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button