کیا عدالتی مارشل لاء لگ چکا ہے؟ ۔۔۔ شازیہ کاسی

یہ وہ سوال ہے جو ہر روز بار رومز تو کجا گلی محلوں میں عوامی سطح پر لوگ سپریم کورٹ پر پھبتی کستے ہوئے نظر آتے ہیں۔
عدالتی نظام میں عدل میں تنزلی جس رفتار سے گزشتہ کچھ سالوں میں آئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ مگر کیا یہ امپیریل سپریم کورٹ ایک دن یا کچھ سالوں میں بنی ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ یک دم نہیں ہوتا۔
اس کی بنیاد نظریہ ضرورت بنی۔ کسی بھی ماوراء دستور اقدام کو ویلیڈیٹ انہی عدالتوں نے کیا۔ تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ آئین کو ری رائٹ کرتے ہوئے برس ہا برس گزر گئے تو اب یہ واویلا کیوں؟
ہمارے ملک میں جمہوریت جمہور کی رائے دہی سے کبھی بھی نہیں آتی بقول عاصمہ شیرازی یہ "بڑے گھر کی کہانی ” ہے۔ تو ہمارے سیاستدان ہمیشہ کمپرومائزڈ رہے۔ بڑے گھر والے شاید ان سے زیادہ عقلمند سیاستدان ہوتے ہیں اس لئے ایک کنگ پارٹی ان کے غیر قانونی اور آئینی اقدام کو پارلیمنٹ سے سند بھی عطا کر دیتی ہے۔ اس طرح عدالتوں میں بھی پی سی او کے تحت ججز حلف اٹھا لیتے ہیں کیونکہ ان کا رابطہ یا واسطہ بڑے گھر سے مضبوط ہوتا ہے بنسبت آئین یا قانون کے۔
مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ یہ تینوں ستون آئین پاکستان میں تفصیل سے اپنے دائرہ کار کے حوالے سے درج ہیں۔ مگر یہ تینوں ستون ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرتے آرہے ہیں۔
انتظامیہ کے کاموں میں مداخلت جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے سے بہت زیادہ ہونے لگی۔ پارلیمنٹ کو ایک طرح سے مفلوج کر دیا گیا سیاسی فیصلے صادر فرمائے جانے لگے۔ عوامی نمائندوں کو گھر بھیجنے کا جو کام پہلے فوج کرتی رہی تھی وہ کام عدلیہ نے اپنے ذمہ لے لیا۔
وکلاء تحریک جو کے کسی جج کے لئے نہیں تھی بلکہ وہ سپریم کورٹ یا عدالت کی آزادی اور خود مختاری کے لئے چلی تھی لیکن وکلاء تنظیموں کی قربانیوں کا ثمر یہ ملا کہ کے سپریم کورٹ شخصیت اور وہ بھی چیف جسٹس تک محدود ہو گئ۔
اندازہ کریں گزشتہ دن جو دو ججز نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے وہ 4/3 کا تھا جو کہ 2/3 کا بتا کر ملک میں جو سیاسی ہلچل برپا کی گئی اس سے عدالت عظمی اور نظام عدل پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے۔
عدالتوں میں فیصلے ضمیر کے مطابق ہوتے نہ کہ قانون کے مطابق۔ صوابدیدی اختیارات کا خوفناک استعمال جس طرح سے سے کیا جا رہا ہے اس کے خوفناک اثرات ملکی سیاست، معاشرت اور معیشت پر جس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں اور اسکے نتائج صرف عوام اور سائلین کو بھگتنا پڑے گے۔
سب سے زیادہ تشویشناک بات عدالت عظمی کی ساکھ جس طرح مجروح ہوئی ہے اس کے بعد کیا یہ عدالتیں "معزز” کہلانے کے قابل رہ گئ ہیں۔ عوام کا عدالتوں اور نظام عدل پر سے اعتبار ختم ہو گیا ہے۔
بازاروں میں جس طرح "ٹرکوں اور ٹرینڈز” کے حوالوں سے آوازے کسے جارہے ہیں وہ انتہائی قابل شرم ہیں۔
موجودہ سپریم کورٹ جس "کو امپیریل کورٹ” سے تشبیہ دیتے ہوئے دو ججز نے اس کی وجوہات بھی دی ہیں اپنے طویل فیصلوں میں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں مارشل لاء لگا ہوا ہے اور ملک خداداد کی سب سے بڑی عدالت آرٹیکل 10 آرٹیکل 25 اور 34 اور اپنے دائرہ اختیار سے باہر جا کر با قاعدہ ایک آمر کی مرضی سے چل رہی ہے۔ اگر اس فرد واحد کی یہ توجیح ماں بھی لی جائے کہ آئین کی پاسداری کے لئے اور ملک میں جمہوریت کے لئے یہ اقدام کر رہی ہے تو مجھے کہنے دیجئے
دامن کو اپنے دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
خود اپنے ادارے میں مشاورت کا عمل دخل نہیں۔
ججز کی تقرری سے لے کر بینچز کی تشکیل تک۔
آئین کی پاسداری نہ کرتے ہوئے اپنے آئینی اختیارات کا بے دریغ استعمال
اپنے صوابدیدی اختیارات کا غیر آئینی استعمال
عدالت کی غیر جانبداری اور آئینی کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button