ٹی ایل پی: اسٹیبلشمنٹ کا ایک اور بچہ اور ختم نبوت ۔۔۔ تحریر: محمد ثاقب چوہدری
کیا اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ گھنائونے کردار کے ساتھ پاکستان کبھی ترقی کر سکے گا؟ ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ جو ملک میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے اور اپنے مطالبات منوانے کی خاطر سول حکومتوں کو دبائو میں لانے کیلئے مختلف ناجائز اولادیں جنتی رہتی ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ ایسی ناجائز اولادوں سے بھری پڑی ہے۔ کبھی یہ مذہبی جنونی گروپ سپاہ صحابہ بناتی ہے تو کبھی طالبان، کبھی یہ لشکر طیبہ بناتی ہے تو کبھی متحدہ قومی موومنٹ۔ اسٹیبلشمنٹ کے منہ کو اختیارات، حکومتیں گرانے اور بنانے کا ایسا خون لگا ہے کہ اب پندرہ بیس افراد کو قتل کروانا ذن کیلئے معمولی سی بات ہے۔
ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ان ناجائز گروہوں کو جب شعور آتا کہ انہیں اپنی اجارہ داری قائم رکھنے اور حکومتوں کو دبائو میں لانے کیلئے استعمال کیا جارم رہاہے تو وہ مزید کھلونا بننے سے انکار کر دیتے جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ ایک نیا گروہ کھڑا کر دیتی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے زیادہ تر گروہ مذہب کے نام پر کھڑے کئے۔ کہاوت ہے کہ کسی قوم کو استعمال کرنا ہو تو اس کیلئے مذہب کارڈ کھیلنا بہترین اسٹریٹجی ہوگی کیونکہ ان پڑھ لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے مذہب کی غلط تشریح مان لیتے اور مذہب کے نام پر استعمال ہو جاتے ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان کو ختم نبوت کے نام پر بنایا گیا، یہ ایک ایسا نعرہ ہے جو پاکستان میں احمدیوں کیخلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹی ایل پی کو مختلف معاملات میں حکومتوں کو دبائو میں لانے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
جنوری 2011 میں پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی سے ملاقات کرنے پر ان کے باڈی گارڈ ممتاز قادری نے چھاتی میں 17 گولیاں مار کر قتل کردیا جسے 2016 میں پھانسی دی گئی۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی کوکھ سے تحریک لبیک پاکستان کے نام سے ایک اور ناجائز اولاد نے جنم لیا اور اہلِ سنت کے علما خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری، انجینئر ثروت اعجاز قادری اور علامہ اشرف آصف جلالی سمیت ہزاروں کارکنوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے منتاز قادری کی پھانسی کیخلاف اسلام آباد کے ریڈ زون ڈی چوک پر دھرنا دے دیا۔
سن 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف نامے میں مبینہ تبدیلی پر ٹی ایل پی نے اس وقت کے وزیرِ قانون کا استعفیٰ طلب کیا۔
حکومت نے ایک مذہبی جنونی جتھے سے بلیک میل ہونے سے انکار کیا تو اس جتھے نے اپنے آقا اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وفاقی دارالحکومت کو تین ہفتوں تک بند کیے رکھا۔ بعد ازاں اسی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت سے اپنے پس پردہ مطالبات منوا لئے اور حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ایک معاہدہ کروایا اور بالآخر وفاقی وزیرقانون کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ جیت گئی اور حکومت نے دبائو میں آکر اپنا وزیر قربان کر دیا۔
اس کامیابی سے ٹی ایل پی کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یہ مزید منظم ہوگئی۔
فروری 2019 میں سپریم کورٹ کے دو رُکنی بینچ نے حکومت کیخلاف مذہبی جتھا بنانے اور جمہوری حکومت کو بلیک میل کرنے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا۔ اس بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایسے فوجی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس حکم پر تو عمل نہ ہوا تاہم اسٹیبلشمنٹ الٹا جسٹس قاضی فائز عیسی کے پیچھے پڑ گئی اور ان کیخلاف ناجائز اثاثہ جات کا ریفرنس دائر کروا دیا۔
اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہینِ مذہب میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری کرنے کا حکم دیا تو تحریک لبیک نے ایک بار پھر ملک بھر کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ لاہور میدان جنگ بنا رہا، ٹی ایل پی کے مسلح جتھوں کی فائرنگ سے 4 پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔
2020 میں فرانس کے ایک میگزین میں نبی کریم کے خاکوں کی اشاعت اور فرانسیسی صدر کی اس اقدام کی حمایت پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر اسلام آباد مارچ کی کال دے دی۔ ٹی ایل پی کا مطالبہ تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت فوری طور پر فرانسیسی سفیر کو بے دخل کرے اور فرانس کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط بھی ختم کئے جائیں۔ جمہوری حکومت ایک بار پھر اس مذہبی جنونی گروہ سے بلیک میل ہوئی اور معاہدہ کرکے اس دھرنے سے جان چھڑائی۔
بعدازاں جمہوری حکومت نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سمیت دیگر نقاط پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تو یہ اسٹیبلشمنٹ کا حمایت یافتہ مذہبی جنونی جتھہ ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کیلئے تیار ہو گیا جس پر حکومت نے ٹی ایل پی کے انتہا پسند، بدتمیز، بداخلاق اور نشے کے عادی امیر کو گرفتار کر لیا جس پر ان کے اندھے مقلدین نے ملک کو جام کرکے رکھ دیا۔ لاہور میں جھڑپوں کے واقعات میں پانچ پولیس اہلار شہید جبکہ متعدد کارکن زخمی ہوئے۔