آہ واجد شیرازی ۔۔۔ تحریر : عاطف عباس شیرازی

وہ گیا توساتھ ہی لے گیا سبھی رنگ اتار کے شہر کا
کوئی شخص تھا میرے شہر میں کسی دور پار کے شہر کا
سمندر پار وہ مٹی کی محبت میں پاکستان آیا تھا۔ تیس برس قبل بچوں کے مستقبل کی خاطر وہ ملک چھوڑ کے کینیڈا جا بسا لیکن واجد شیرازی کا دل اپنے دیس کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ اپنے ابائی شہر خوشاب سے تو اسے کچھ خاص محبت تھی۔اسی محبت میں عبداللہ شاہ شیرازی قبرستان میں تمام آباو اجداد کی قبروں کو پختہ کروایا ناموں کی تختیاں لگوائی وہ جب بھی پاکستان آتا تھوڑا وقت راولپنڈی جب کہ وقت خوشاب عزیزو اقارب اور دوستوں سا تھیوں میں گزارتا۔ اپنے پرانے دوستوں سے وہ ملنا نہ بھولتا ۔جنوری میں اس بار جب وہ ابھی ڈھیری حسن آباد پہنچا ہی تھا کہ اس کی آنکھیں باوے حشمت شاہ کو یادکرکے نم ہوگئیں۔ریاض ڈرائیور سے کہاکہ ڈھیری اداس لگتی یے باوا حشمت شاہ تم نے جلدی کی۔مجھے کہتے ہم حسن ابدال باوا عظمت شاہ سےتعزیت کے لیے جائیں گے۔ ڈاکٹر عارف۔پیر ماجد شاہ اور میں تعزیت کے لیے عظمت شاہ کے پاس گئے فاتحہ کہا وہاں باوا عظمت شاہ کے بزرگوں کے دربار پر حاضری دی اور ایڈمنٹن پوسٹ کے لیے ایک پروگرام بھی ریکارڈ کروایا۔ صحافت کا پیشہ انہوں نے کینیڈا جا کربھی ترک نہ کیا بلکہ وہاں جا کر پاکستانی کمیونٹی کی خدمت میں ایک اردو میگزین ایڈمنٹن پوسٹ بھی نکال دیا۔ اس بار جب خوشاب کا چکر لگایا تو اپنے کزن ظفر شیرازی کو بھی ایڈمنٹن پوسٹ خوشاب کا بیورو چیف مقرر کیا۔اور اس سلسلہ میں باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام کیا یہ خوشاب سے ان کا خصوصی لگاو تھا کہ ایڈمنٹن میں بھی خوشاب سے ایک تعلق بنا رہے۔ مجھے یاد ہے جب پہلی بار بارہ سال قبل انہوں نے مجھ سے ایڈمنٹن پوسٹ نکالنے کے لیے ڈسکس کیا توانہوں نے اپنے بڑے صاحبزادے وصی حیدر کو یوتھ پیج کا انچارج بنایا وہ چاہتا تھا اس کا فرزند اس ڈگر پہ چلے اور ایڈمنٹن پوسٹ کے لیے لکھے۔واجدشاہ ایک پیدائشی صحافی تھا جس نے صحافت کی خاطر اٹامک انرجی کی ملازمت ترک کردی یہ جانتے ہوئےکہ اس شعبہ میں بہت دشواری ہےمگر اس شعبہ نےانہیں عزت بھی بہت دی اور اس بے بھی اپنے پیشے کی لاج رکھی۔واجد شاہ ناسٹالاجک طبعیت کامالک تھا اس بار جب آیا تو راجہ بازار سے جا کہ خصوصی طور پرریڈیو خریدا۔ ڈیجٹلائزیشن کے دور نے پرانی روایات کو بھی ڈیجٹل کر دیا ہائی برڈ ریڈیو تھا لیکن اس پر بھی وہ بے حد خوش تھے کہ اے ایم چینل چلاتا ہے۔ خوشاب میں اپنے ابائی قبرستان میں دفنا کر واپس جا رہا ہوں لیکن کتنی ہی یادیں اس کی یاد کے ساتھ زندہ ہیں۔
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہے دوستوں
پتہ نہی یہ موزی کرونا کی وبا کب جان چھوڑے گی کتنے ہی پیارے دوست یہ عذاب کھا گیا ہے۔ جنگ بیورو آفس جاتے جب کلثوم ہسپتال کے پاس سے گزرتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے کبھی سوچتاہوں قبرستان عبداللہ شاہ شیرازی سے کتنا پیار تھا اسے ۔جہاں اپنے تمام بزرگوں کی پچاس ساٹھ پکی قبریں بنوائیں وہی خود بھی آکہ دفن ہو گیا۔پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button