کیا ہونے والا ہے؟ ۔۔۔ فیصل اظفر علوی

گزشتہ چند روز سے وطن عزیز میں افراتفری کا جو عالم ہے اس سے ہر ذی شعور شہری نہ صرف پریشان بلکہ آنے والے دنوں کیلئے فکرمند ہے۔ اس وقت جو ملکی حالات ہیں ان کی کہانی اُس وقت شروع ہوئی جب تحریک لبیک موجودہ (کالعدم تحریک لبیک) نے فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر پاکستان سے فرانس کے سفیر کو 16 فروری تک بے دخل کرنے اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی فروری میں اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ان کی حکومت ٹی ایل پی کے مطالبات کو 20 اپریل کے بعد پارلیمنٹ میں لے کر جائے گی۔اس سے قبل ٹی ایل پی نے مذکورہ معاملے پر ماضی میں طے پانے والے ایک معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی جسے 11 جنوری کو طے پانے والے نئے معاہدے کے بعد ملتوی کر دیا گیا تھا۔
گیارہ جنوری کو ہونے والے معاہدے میں حکومت کی نمائندگی وفاقی وزیرِ مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کی تھی۔ ٹی ایل پی کی نمائندگی کرنے والوں میں غلام غوث، ڈاکٹر محمد شفیق، غلام عباس اور محمد عمیر شامل تھے۔البتہ، حکومتِ پاکستان کا کہ مو?قف تھا کہ پارلیمنٹ میں قرارداد لانے سے متعلق ٹی ایل پی سے مذاکرات جاری تھے کہ پتا چلا کہ وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کی کال دے چکے ہیں۔ یعنی تحریک لبیک کی جانب سے عملاََ معاہدے کی خلاف ورزی کا پہلا قدم اٹھایا گیا۔ نتیجتاََ تحریک کے امیر سعد رضوی کی گرفتاری ہوئی اور ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔
قارئین کرام! تحریک لبیک کے مظاہروں میں جو طریق روا رکھا گیا اس سے نہ صرف ملک کو نقصان پہنچا بلکہ کورونا کے اس وبائی دور میں کئی مریض اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے، ہر اہم رابطے کی سڑک بلاک اور جلاﺅ، گھیراﺅ کے واقعات نے عجیب بے چینی کی فضا پیدا کردی، راقم الحروف خود چشم دید گواہ ہے جس میں کئی مریضوں کو احتجاج اور راستے بند ہونے کی وجہ سے ہسپتال پہنچنا نصیب نہ ہو سکا۔ متشدد مظاہروں سے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا وہ الگ بلکہ مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ حکومت نے بھی جس طرح طاقت کے زور پر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی وہ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف تھا۔اول تو حکومت کو تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہئے تھا اور اگر کر لیا تو اس کی پاسداری ان پر لازم ہے۔ دوسری جانب میرا تحریک لبیک کے سرکرردہ رہنماﺅں اور علما کرام سے بھی ایک سوال ہے کہ کتنے ہی اسلامی ممالک دنیا میں موجود ہیں جن کی آپ مثالیں دیتے ہیں ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا، بحرین، عمان ، قطر وغیرہ کسی ایک بھی ملک نے فرانس کیخلاف مظاہرے میں اپنی ہی املاک اور لوگوں کا جانی نقصان کیا؟ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ آپ احتجاج فرانس کیخلاف کریں اور جلا اپنے ملک کو دیں، نعرہ ختم نبوت اور لبیک یا رسول اللہ (ص) لگائیں اور اپنے لوگوں کا ہی راستہ بند کر دیں۔ کیا سعودی عرب میں ایسا ہوا؟ یا کسی اور اسلامی ملک میں اس طرح کے مظاہروں کی نظیر ملی؟ کیا کسی دوسرے مسلمان ملک میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو مارا گیا؟ کیا کسی دوسری اسلامی مملکت میں کفر کے فتوے جاری کئے گئے؟
قارئین کرام !ملکی ہنگامی حالات کے پس پردہ محرکات کیاہیں اور آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے اسے سمجھنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ معاملہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کردینے سے ختم نہیں ہوگا، یعنی مسئلہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آرہا ہے بلکہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے، جو عالمی سیاست کی ذرا سے بھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں انہیں علم ہے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمن عناصر نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے، دشمن جانتا ہے کہ پاکستان کو براہ راست شکست دینا اس کے بس کی بات نہیں البتہ ایک حربہ ہے جسے آزما کر ملک کو انارکی سے دوچار کیا جا سکتا ہے اور وہ حربہ مذہبی جذبات اور فرقہ واریت ہے، اس وقت لوگوں کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلا کر اہداف پورے کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور اس مقصد کیلئے ہمسایہ ملک بھارت نے اچھی خاصی رقم جھونکی ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ عشق رسول صلی اللہ و علیہ وسلم میں ایسے سادہ لوح افراد بھی سڑکوں پر استعمال ہو رہے ہیں جنہیں اصل حقائق کا علم نہیں، بس وہ نبی اکرم کے عشق اور تحفظ ناموس رسالت کے چکر میں اپنے ”رہنماﺅں“ کی ہر بات پر عمل پیرا ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحریک لبیک کے وٹس ایپ گروپوں میں ایسے بھارتی نمبرز کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوا ہے جو بھارت سے بیٹھ کر فسادات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان تمام کارروائیوں سے بس ایک ہی ہدف حاصل کرنا مقصود ہے اور وہ ہدف پاکستان کو FATFمیں بلیک لسٹ کروانا ہے۔ عید الفطر سے قبل ”ایف اے ٹی ایف“ نے پاکستان بارے فیصلہ کرنا ہے اور دشمن اس موقع کو ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا ، اگر حالات میں سدھار پیدا نہ ہوا تو عین ممکن ہے کہ پاکستان عید الفطر سے قبل ہونے والے اجلاس میں بلیک لسٹ ہو کر ایک نئے تاریک معاشی دور میں داخل ہو جائے۔ اس لئے حکومت اور تحریک کے قائدین و دیگر علما کرام معاملت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اس کا حل تلاش کریں۔ اللہ تعالیٰ رمضان کے بابرکت مہینے کے طفیل وطن عزیز پر اپنا کرم فرمائے، الٰہی آمین۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button