ٹائٹل سپانسر شپ ۔۔۔ خصوصی تحریر: نعیم ثاقب

یہ میری اس سے تیسری ملاقات تھی اور ہر ملاقات میں یہ شخص مجھے ایک نیاسرپرائز دے رہاتھا۔ میں اس کے خوبصورت سجے سجائے آفس میں بیٹھا تھا آفس جدت اور سادگی کاخوبصورت امتزاج تھا جو وہاں بیٹھنے والے کے ذوق کا عکاس تھا۔ میری اس سے پہلی ملاقات غزالی کالج کی تقریب میں جہاں قابل احترام دوست میجر رفیق حسرت کی دعوت پر گیا۔جہاں الکبیر ٹاؤن کے چیئرمین چوہدری اورنگزیب سے میری پہلی ملاقات اتفاقاً ایک ہی صوفے پر بیٹھنے کی وجہ سے ھوئی۔ پہلی نظر میں چوہدری اورنگزیب مجھے ہرامیر آدمی کی طرح تھوڑا مغرور لگا لہذا بات سلام دعا سے آگے نہ بڑھی۔ مگر جب امجد اسلام امجد اور ڈاکٹر امجد ثاقب کے بعد تقریر کرنے سٹیج پر آئے تو سلجھے لہجے میں بے سہارا بچوں کی مدد کرنے کے عزم نے مجھے اپنے پہلے والے خیال کو بدلنے پر مجبور کر دیا۔ دوسری ملاقات تقریباً دو سال بعد کنگز ٹاؤن میں میجر رفیق صاحب کے آفس کے افتتاح کے موقع پر ہوئی۔ اپنے گارڈز اور ڈبل کیبن ڈالوں کے ہمراہ آتا ہوا چیئرمین مجھے ایک بار پھر روایتی ڈویلپر لگا جو پروٹوکول اور لاؤ لشکر کے بغیر چلنا پسند نہیں کرتا۔ تقریب میں اپنی رئیلٹرز کمیونٹی کے بارے میں اس کے خیالات اور ان کے لیے کیے گئے اعلانات نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا اپنی برادری اور اپنے اصل کو یاد رکھنے والا شخص خود پسند اور مغرور ھو سکتا ہے؟ پھر حیرت کا دوسرا جھٹکا مجھے اس وقت لگا جب تقریب کے احتتام پر سب شرکاء چیئرمین کے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے اور میں تھوڑی دور کھڑا جانے کے لیے پر تول رہا تھا تو چیئرمین کی آواز کانوں سے ٹکرائی! نعیم ثاقب بھائی آپ بھی آجائیں۔آج میجر صاحب کے بلانے پر آئے ہیں ویسے تو آپ آتے نہیں آپ کا اپنا ٹاؤن ہے آجایا کریں اور ہاں آپ کا ورچوئل ایکسپو کا آئیڈیا بہت زبردست ہے۔
آپ کسی دن آئیں اور بتائیں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ چئیرمین کا اپنائیت بھرا انداز اور ورچوئل ایکسپو کے بارے میں امعلومات نے مجھے اس کی شخصیت کا ایک نیا رخ دیکھنے پر مجبور کردیا۔تقریباً دو مہینے بعد میں چئیرمین کے سامنے اس کے آفس بیٹھا اصل اورنگزیب سے مل کر ڈھائی گھنٹوں میں وہ چیزیں سیکھیں جو چار ماسٹرز اور ایک ایم فل کرنے کے بعد بھی میں نہ سیکھ سکا اور انہیں باتوں نے کالم لکھنے پر مجبور کردیا تھا۔ باتوں باتوں میں میں نے کہا فلاں جرنلسٹ کا آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ چئیرمین نے جواب دیا۔ نعیم بھائی! مجھے تو وہ اچھا بندہ لگتا ہے ہو سکتا ہے اس کو کوئی غلط فہمی ہو۔اللہ نے ایک دن اس کو ہدایت دے دینی ہے وہ اچھا بندہ ہے خود ہی باز آجائے گا۔ پھر ایک ڈیلر کا تذکرہ ھوا۔چوہدری کہنے لگا نعیم بھائی! سنا ھے میرے بارے اس کے خیالات اچھے نہیں ہیں پر میرے دل میں اس کے لیے کچھ نہیں اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی گلہ ھے میرا دل صاف ھے اور مجھے یقین ھے ایک دن اللہ اس کا دل بھی صاف کر دے گا۔ میں دل ہی دل چئیرمین کی مثبت اپروچ کا قائل ھوگیا۔ جب ایکسپو کی بات چلی تو کہا مجھے تو اس بارے زیادہ پتہ نہیں آپ میرے لیے جو بہتر سمجھتے وہ کردیں مجھے یقین ھے آپ جو کریں گے اچھا ہی کرینگے۔
میڈیا سے متعلق ایک نئے پراجیکٹ پر بات ہوئی تو کہنے لگے آپ بڑے بھائی کی حیثیت سے جو بھی فیصلہ کریں میرے لیے قابل قبول اور یقیناً بہتر بھی ھوگا میں چئیرمین کا حسن ظن دیکھ کر حیرتوں کے سمندر میں ڈوبتا جارہا تھا گھر آکر حسن ظن اور خوش گمانی کی اہمیت کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو احساس ھوا بدگمانی ایسی متعدی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔ بدگمانی سے مراد ایسی بات دل میں لانا ہے جس کا نہ یقین ہو اور نہ ہی اس کے متعلق دو عادل گواہ ہوں۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ”اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو، بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے)۔“الحجرات،۹۴:۲۱
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے،ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو،حسد نہ کرو،بغض نہ کرو،ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ۔(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس… الخ، ص۱۳۸۶، الحدیث: ۲۸(۲۵۶۳)
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا’’کسی کے بارے میں بھی بدگمانی سے دوری کرو، بیشک بدگمانی عبادت کو تباہ کردیتی ہے اور گناہ کے بوجھ کو بھاری بنا دیتی ہے۔عبدالواحد تمیمی آمِدی، فہرست غررالحکم، ص 227۔
آج بیٹھا لکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کسی بھی نئے پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے سپانسرشپ کی اہمیت اپنی جگہ!“ پرحقیقی اور مستقل کامیابی کے لیے اگر حسن ظن، مثبت سوچ،خود اعتمادی، اپنائیت، محبت، مان،جہد مسلسل،دوسروں پر اعتماد، مہمان نوازی،خوش اخلاقی، اور مستقل مزاجی کی ٹائٹل سپانسرشپ ہو تو اپنے لیے گھر بنانے سے لیکر دوسروں کے لیے ٹاؤن بنانے تک ہر منصوبہ کامیاب ہی نہیں سپر ہٹ بھی ہو جاتا ہے“۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button