عمرانیات کا نظریہ ضرورت۔۔۔ تحریر: شازیہ کاسی

عمرانی اور انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی صحت کے لئے حکومت کی ذاتی بغض سے بھری پالیسی بےنقا ب، کاش یہ اصول مشر ف کی رہائی کے وقت بھی اپنایا گیا ہوتا مگر انکی جائیداد تو کجا انکا کیس ہی بند ہو گیا ۔ خیر ای سے ایل سے نواز شریف کا نام نکالنے کے لئے حکومت کی بے بسی بے منطق ہے ۔ اس کی وجہ جو سمجھ میں آ رہی ہے اور جو ہمارے تجزیہ نگار جانتے ہوں وہ بھی ڈسکس نہیں کر رہےاور وہ وجہ عدالت ہے۔جب عدالت نے ضمانت کے وقت کہا تھا کہ جو امور حکومت کو طے کر لینے چاہیے جس کا اختیار حکومت کے پاس ہے بھی اس کے لئے عدالت کو مزید زیر بار مت کریں ۔ اور اگر حکومت( یہاں ریاست کو حکومت کہتے ہیں جن کا ڈنڈا اور بوٹ دونو ں چلتے ہیں)  اس ضمانت کی مخالفت کرے گی تو عدالت اسکو خارج کر دے گی ۔

یہ پہلی کڑوی گولی ریاست نے بگتی کیونکہ ریاست کو کرتار پور کا لانگا کھولنا تھا ۔ اس شخص کی ولادت کے دن جس نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا ۔ اس دن ہم نے پاکستان کے طول و عرض سے لے کر پوری دنیا میں پاكستانی میڈیا کو بھارتی میڈیا کے طور پر دکھایا کوئی علامہ محمد اقبال کے مزار پر حاضری دینے نہیں گیا ۔ اس لئے ریاست نے غیر مشروط طور پر طبی سہولتوں سے لے کر طبی بورڈ اور پھر طبی بورڈ سے لے کر غیر مشروط طور پر باہر جانے کی اجازت دی گی۔ پچھلے ایک ہفتے تک کوئی بونڈ کوئی رقم کوئی ایگریمنٹ کی بات نہیں آئی تھی ۔ پھر ریاست کو خیال آیا عدالت کی خبر لینے کا اور بیچاری کٹھ پتلی حکومت نے یہ ڈرامہ رچایا اور اب آپ عدالت جائیں اور و ہی اجازت دیے گی ۔ قانونی اخلاقی جواز تو حکومت کے پاس نہیں تھا ۔ مگر بچہ جھمورا مجبور تھا اس لئے U ٹرن لینا پڑا ۔ مشر ف کو ملک سے نکالا گیا طبی بنیادوں پر اور چار دن بعد وہ دبئی کے جم میں ایک blond حسینہ کے ساتھ جم میں مشق فرماتے ہوئےنظر آئے۔ اس وقت بھی عدالت نے ECL سے نام نہیں نکالاتھا حکومت نے کیا تھا اور تنقید بھی سہی تھی جس میں پیپلز پارٹی پیش پیش تھی ۔سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ مریم نواز کی ضمانت کے وقت عدالت نے انکا پاسپورٹ جمع کر لیا مگر کرتار پور کے لانگے کے لئے کوئی ویزا کی شرط نہیں ۔ مودی تو نواز شریف کا یار تھا مگر ریاست صاحب جھبیاں ڈال کر حکومت کے ذاتی دوست کو جو کہ دوست کی وزارت عظمیٰ کی تقریب میں آتا ہے اور ہمارا ریاست خان اسکو کرتار پور دیتا ہے اور کشمیر پہ اخلاقی فتح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا کشمیر ایک اور فلسطین بننے جا رہا ہے ۔ فیصلہ عدالت کرے گی ۔حکومت عمل کرے گی اور ریاست موج کرے گی ۔اب ذرا مولانا کے دھرنے کی بات ہو جائے ۔ مولانا نے ثابت کر دیا کے حکومت کٹھ پتلی ہے جب ریاست خان نے مولانا سے بات کی ۔ مولانا نے ثابت کیا کے قانون کی پاسداری کیسے کی جاتی ہے ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button