دو پل ۔۔۔ تحریر: سائرہ ناز

"دو پل کسی کو دینا کمال یہ نہیں بلکہ کمال تو یہ ہے کہ خود کی ذات میں الجھے ہوئے اک شخص کو سمجھنا ہے”
اک ایسا دائرہ جو سرمئ صحفے پر بنایا گیا تھا جس سے مصور کی کار گری خود جھلک رہی تھی ۔ دائرے میں موجود رنگوں کا امتزاج عمدہ لیکن انسانی سمجھ سے باہر ہے ۔ اور میری سمجھ میں اس مصور کا کوئی رنگ کبھی نہیں آیا۔ اس میں سرخ رنگ تھا نہ نارنجی اور نہ ہی پیلا خیر جو بھی ہے عمدہ ہے۔
سورج کا یوں آسماں میں گم ہوجانا میرا کائنات کے تمام مناظر میں سے دل موہ لینے والا منظر ہے جس کو میں نے کبھی نظر انداز نہیں کیا یوں نیم شام کے وقت چھت پر بیٹھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی بلند پہاڑی کی چوٹی پر ہوں کئی دریاؤں وادیوں اور پہاڑوں سے گھومتی ہوئی ہوائیں میرے ڈوبتے سورج کے منظر کو حسین تر بنا دیتی ہیں ۔
مجھے مصوری کا بہت شوق رہا لیکن بس شوق نہ کوشش کی نہ وقت ملا ورنہ فلک پر بنے نقوش ڈوبتی اور نکھرتی زندگی جھولتے اور گیت گاتے درخت دیوہیکل مگر دلکش پہاڑوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑا دریا مگر دور سے نظر آنے والی چھوٹی سی سیم میں ضرور بناتی اور یقیناً میں پھر اچھی مصور کہلاتی مگر ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تمام مناظر دو ہی صورتوں میں نظر آسکتے ہیں جس میں سے ایک صورت آپ کو یہ تمام منظر یا تو کینوس پر اتارنے کے لیے مجبور کرئے گی یا ایک سادہ عام صحفے پر اور وہ صورت اداسی ہے۔
خوشی میں آپ سر سری طور پر ان سب چیزوں کا مشاہدہ کریں گے لیکن اداسی میں مشاہدے کے ساتھ تجزیہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ ذات میں خود سے لڑنے والی مختلف اقسام کی جنگوں کو ایک بار پھر سوچ کر ڈپریشن جب عروج کی حد کو جاتا ہے تو یہ کائنات اور اس کے مناظر ہی ہیں جو آپ کو میڈیل ڈپریشن تک محدود رکھتے ہیں ۔
یہ میں ہر گز نہیں کہوں گی کہ ڈپریشن ختم ہو جاتا ہے مگر ہاں خاموش ضرور ہو جاتا ہے ۔
انسانی فطرت کو سمجھنے کے لیے مختلف Theorys اور پھر ان theorys کی کئی اقسام بیان کی گئی نفسیات کی نظر میں کوئی بھی theory کسی دوسری Theory سے اتفاق نہیں کرتی کیونکہ آپ کا میرا ہر روح انسانی کا نظریہ ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔
According to psychology there are eight type of personality.
آٹھ شخصیات کی فطرت ایک دوسرے سے الگ اور نظریہ جذبات و افکار بالکل مختلف ہوگے ۔
ان تمام باتوں کا مقصد یہ کہ بحیثیت انسان زندگی کو گزارنے کے لیے مختلف جذبات اور فطرت رکھنے والے انسانوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے ۔
ضرورت سے زیادہ لوگوں سے وابستگی کے ساتھ ساتھ جو امیدیں رکھتے ہیں اور پھر۔ ہماری بنائی گئی ذہنی عمارت حقیقی طور پر سامنے رونما نہیں ہوتی تو انسان کا شعوری طور پر دل برداشتہ ہونے کے ساتھ زندگی کی تمام قدروں کو کھو دیتا ہے ۔
منفی خیالات اور خود سے بنائے گئے دوسروں کے بارے میں نظریات اصل معنوں میں خود کھوکھلا کر دیتے ہیں جو آج کل آئے دن بڑھتی ہوئی بیماری ڈپریشن کو جنم دیتے ہیں ۔ اس کی ایک خاص وجہ انسانی فطرت میں موجود محبت کا مادہ ہے یہاں محبت سے مراد صرف دو انسانوں کے درمیان جذباتی تعلق نہیں بلکہ ہر وہ شہ ہے جس سے انسانی لگاؤ ہو انسانی جذبات کو سنوارنے اور فطرت کے مدوجذر کو تھمانے کے لیے ہمارے چاروں اطراف فضا ایک خاص اہمیت رکھتی ہے ماحول کو تشکیل دینے میں ہم انسان بہت کارفرما ہوتے ہیں ۔
لیکن ہمارے ماحول کا منفی پہلو جو ہر دوسری فطرت میں موجود ہے ۔کہ ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کے ڈوبنے کو ہم انا یا پھر خود پسندی کا نام دے دیتے ہیں۔
انانیت ٫خود پسندی یہ وہ عناصر ہے جس میں ہم تنہا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ مندرجہ ذیل بالا تحریر میں بیان کر چکی ہوں کے میڈل ڈپریشن کی ایک قسم ہے ۔
اب سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ
ہم کیسے اس صورت حال سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ؟
دن بدن مشکل اور تیز رفتار زندگی میں ہمارے رویوں کا مطالعہ اور اس سے حاصل شدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کبھی دوسرا انسان نہیں برپا ہوگا بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی ذات کا گہرے اور تجزیاتی انداز میں مطالعہ کیا جائے ۔
جس میں ذہنی دباؤ کو بڑھانے والی منفی سوچیں دوسروں کو نظر آنے والا ہمارا خود پسند رویہ جو کہ ہمارے لیے ایک اذیت کا سما ہے اور ان تمام منفی رویوں اور سوچوں کو رد کرنا ہوگا جو ہم نے ذہنی الجھن میں تعمیر کی تھی ۔
سرمئی آسمان ہوجانےکےبعد ہوا کی آمد میں اس قدر کمی کے بس سانس لینے کا کام ہی ہو سکتا ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کے ذریعے ہمیں زندگی کے تمام اتار چڑھاؤ سمجھائے ہیں ۔ جیسے رات ہونے سے پہلے اور سورج ڈوبنے کے بعد نیم رات انسان کے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کی واضح شکل ہے ۔ سیاہ سرخ اور نیلے رنگ کے امتزاج سے زندگی میں موجود مختلف اقسام کی پریشانیوں کا موجب ہے ۔ جس سے بھرا ہوا یہ ماحول ایک مختصر رات کی وہ علامت ہے جس کے بعد چاروں طرف روشنی کے ساتھ ایک سرد ہوا ڈپریشن کے شکار ذہنوں کو اپنے حسار اور دل کو موہ لینے والا منظر بیان کرتی ہے ۔ جس کی تلاش مجھے آپ کو ہو انسان کو ہے جو اپنے اندر جذب کی گئی جنگوں سے لڑ رہا ہے اور ساتھ ہی دو پل اپنی ذات کو دینے سے قاصر ہے ۔۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button