بریانی اک نشہ

لفظ بریانی فارسی لفظ’’بریان‘‘سے مشتق ہے جس کے معنی’’تلا ہوا یا بھنا ہوا‘‘کے ہیں۔مگر برصغیر میں بریانی کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک بار بیگم ممتاز محل فوجیوں کی بیرکوں کے دورہ پر تھیں تو وہ افواج کی صحت پر تفتیش زدہ ہوئیں انہوں نے شاہی مطبخ کے سالار کو بلا کر حکم صادر کیا کہ انہیں چاول گوشت ملا کر دیا جائے تاکہ یہ متوازن غذا ئی ضروریات حاصل کر پائیں۔شاہی مطبخ کا سالار جانے ’’غذائی توازن‘‘برقرار رکھ پایا کہ نہیں ہماری پولیس کے ہتھے جو چڑھ جائے وہ ان کا ذہنی توازن ضرور متوازن کر دیتے ہیں۔
یہ مقولہ تو اب زبانِ زدِعام ہو چکا ہے کہ باشندگانِ سیالکوٹ ماں باپ چھوڑ دیتے ہیں دال چاول نہیں چھوڑتے۔لیکن شنیدہ کہ بود مانند دیدہ کے مصداق، میں نے بڑے بڑے آسودہ حال برانڈڈ سوٹ بوٹ زیب تن کئے سات ستاروں(سیون سٹار)والے ہوٹلز میں ویسے ہی سرعت و تیز گام کیٹرنگ کی جانب سپیڈو میٹر کی طرح ایسے جاتے ہوئے، جیسے پنجاب کے کسی گائوں کی شادی پر اس آواز پر کہ ’’روٹی کھل گئی جے‘‘سادہ لوح دیہاتیوں کو بھاگتے دیکھا ہے۔سیون سٹار اور دیہاتی شادی کے کھانوں پر فرق صرف کپڑوں اور کراکری کا ہوتا ہے وگرنہ زردہ سیون سٹار میں بھی ’’مٹھے چاول‘‘ہی ہوتے ہیں۔دیار غیر میں رہتے ہوئے میرا یہ مشاہدہ ہے کہ خوش خوراکی بس نیت کا فطور ہے وگرنہ مہنگے سے مہنگے ’’فطائر‘‘(عربی کھانا) کے سامنے ہمارے کشمیری بھائی دال چاول اور پنجابی ،سندھی ،بریانی کی طرف یوں لپکتے ہیں جیسے چیل چوزے پر،پٹواری بریانی پر،جیالے راشن پر ،مولانا مذہب اور انصافین سوشل میڈیا پر۔قول صدق و صفا یہ ہے کہ بریانی میں موجود چکن کے ساتھ ہم پاکستانی وہی سلوک روا رکھتے ہیں جو چیل کوے یا چوزے کے ساتھ کرتی ہے۔
ایسے ہی ایک بار ادبی تقریب میں بریانی کے ساتھ بے ادبی دیکھتے ہوئے اپنے ایک ادیب دوست سے فرش پر پڑی چکن کی’’ باقیات‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ حضور یہ کیا ہے؟فرمانے لگے ’’بریانی کے ساتھ اجتماعی زیادتی‘‘۔میرے ایک حیدر آبادی(بھارت) دوست کا کہنا ہے کہ ہم حیدرآبادی جمعہ کے روز ،جمعہ ا ور بریانی کی بھی اتنی ہی تکریم کرتے ہیں جتنی کہ ماں باپ کی توقیر،بلکہ کبھی کبھار جب بریانی کی خوشبو جان لیوا ومسحور کن ہو تو ماں باپ کیا خطبہ جمعہ بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔یہ بات سنتے ہی میں انگشت بدنداں ہوا کہ’’ یہ لو ،کر لو، گل‘‘ہم سیالکوٹیوں کو رو رہے ہیں یہاں تو بات مذہبی حدود وقیود سے بھی ماورا ہو چلی ہے۔نہیں جناب دنیا بھلی سو بھلی ہے۔میرے خیال میں دنیا میں کل ڈشز کی تعداد چار ہیں،یعنی دال چاول،آلو گوشت،مٹھے چاول تے حلوہ(جو اب ناپیدہوتا جا رہا ہے)،باقی سب انہیں چار کی ذیلی ڈشز ہیں۔
میری ذاتی رائے کے مطابق بریانی کی تاریخ کا آغاز اس دن ہوا جب کسی شاہی مطبخ میں شاہی باورچی سے سہواًمصالحہ مع گوشت زیادہ پڑ گیا ہوگا۔درزی اور باورچی میں یہی ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں سے جب کام کرتے ہوئے کوئی گڑ بڑ ہو جائے تو ایک نئی ڈش اور نیا فیشن اختراع پذیر ہو جاتا ہے۔
ماحول کو پر معطر کر دینے والی بریانی کی خوشبو سے کسی کے منہ میں پانی بھر آنا عمل مکروہ نہیں تاہم بریانی کی پلیٹ دیکھتے ہی ’’اوچھے‘‘ہو جانا کوئی صحت مندانہ فعل نہیں ہے۔اکثر لوگ بریانی اور پیزا کھانے سے قبل سالاد کی پلیٹ کو ملٹی سٹوری بنا کر ہوٹل کے مالک،ویٹر یا ہال میں موجود گاہکوں کی جانب ایسے فاتحانہ انداز میں دیکھیں گے جیسے اکبر نے ’’دلی لوٹ‘‘لی ہو۔
رسم قل ہو کہ رسم نکاح بریانی دسترخوان کی زینت نہ ہو تو فنگشن پھیکا پھیکا سا لگتا ہے۔رسم قل خوانی پر بریانی نہ ہو تو رشتہ دار ناراض اور رسم نکاح، بنا بریانی ہو تو دلہا نالاں۔گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے لوگ رشتہ دیکھنے جائیں تو لڑکی کی شکل و صورت دیکھنے سے قبل ہی پوچھ لیتے ہیں کہ لڑکی کو بریانی بنانا آتی ہے کہ نہیں۔علاقہ بھر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ لڑکی قبول صورت نہ بھی ہو تو تین بار قبول ہے قبول ہے چلے گا مگر بریانی بنانے کا طریقہ نہ آنا باعث صد گناہ ارو رشتہ سے انکاربھی ہو سکتا ہے۔جمعہ سیالکوٹیوں اور گوجرانوالیوں کا ’’یوم بریانی ‘‘ہوتا ہے۔اور یوم بریانی کسی طور یوم عید سے کم نہیں سمجھا جاتا ۔بروزِ جمعہ ایک بار دوست سے ملنے سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوا توسب چہرے ایسے کھلے ہوئے تھے جیسے موسم بہار میں گلاب،وہ الگ بات کہ کچھ گلاب کالے بھی تھے۔شائد ایسے چہروں کو دیکھ کر ہی امانت چن نے کہا تھا کہ ’’لال ہدوانہ تے کالا بٹ قسمت والوں کا ملتا ہے‘‘جمعہ سے قبل یہ کسی کی نہیں سنتے،کہ بریانی کھانی ہوتی ہے،جمعہ کے بعد بھی کسی کی نہیں سنتے کہ سننے کے قابل نہیں رہتے۔یہ تو اکثر سنا ہوگا کہ شور سے لوگوں کے کان ’’سُن‘‘ہو جاتے ہیں ،یہاں لوگوں کے بریانی کھا کر پیٹ سن ہو جاتے ہیں۔دورہ سیالکوٹ کے بعد یہ عقدہ بھی کھلا کہ وہاں اکثر لوگ’’پیٹ‘‘سے کیوں ہوتے ہیں۔ سیالکوٹ،گوجرانوالہ،گجرات حیدرآباداورکراچی میں جمعہ کے روز لوگوں کی حالت زار کسی طور قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہوتی۔بریانی کا دیدار ایسے کیا جاتا ہے جیسے کسی بزرگ کا۔نفسا نفسی کا یہ عالم کہ مائیں اہنے بچوں کو پہچاننے سے انکاری اور باپ جو سب کا باپ ہوتا ہے اس دن کسی نہیں ہوتا۔کوچہ و بازار ،گھر اور مساجد میں دعا واستغفار کی صدائیں بلند ہوتی ہیں
’’کہ اے خدا بریانی کھانے سے قبل اپنے پاس نہ بلانا‘‘۔
ان علاقوں میں جمعہ واحد دن ہوتا ہے جب لوگ بریانی کھاکھا کر تھکنے کے بعد ایسے لڑکھڑائے قدموں چلتے ہیں جیسے ہیروئنچی ’’ٹن‘‘ہو کر۔یوں لگتا ہے بریانی کھائی نہ ہو ’’پی‘‘ہو۔لاہوریے کہتے ہیں ’’پہاڑ اپنی جگہ سے حرکت کرسکتا ہے مگر لاہورئیے بریانی کھانے کے بعد نہیں‘‘۔لاہوریوں کے ہاں یہ بات اب ضرب المثل ہے کہ’’پہاڑ کے نیچے دب کر مرنے سے بہتر ہے بریانی کھا کر مرا جائے‘‘میرا ایک لاہوریا دوست کہتا ہے کہ میری خواہش ہے کہ لوگ میرے دار فانی سے رخصت ہونے کے بعد مجھے اس بات سے پہچانیں کہ
’’ماشااللہ بریانی کھاتے پیتے دنیا سے رخصت ہوا‘‘ ۔انہیں مرنے کی ہرگز فکر نہیں ہوتی،پریشانی یہ ہوتی ہے کہ اگر دنیائے فانی سے کوچ کر گیا تو جمعہ کی بریانی کون کھائے گا؟
ہم سب جانتے ہیں کہ گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر واقع ہے،یوم بریانی میں سب سے زیادہ حادثات اسی دن ہوتے ہیں کیونکہ لوگ بریانی کھانے یا کھا کر گھر جانے کی جلدی میں ہوتے ہیں۔پاکستان کے ’’بریانی زدہ‘‘علاقوں میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں،جو بریانی کھاتے ہیں یا بہت کھاتے ہیں۔ایسے علاقوں میں کھانے والے’’ٹن‘‘اور زیادہ کھانے والے’’سُن‘‘ہوتے ہیں۔ساس اور بریانی میں مشترک صفت’’مصالحہ‘‘ہے۔ساس کی باتیں اور بریانی کا ذائقہ مصالحہ دار نہ ہو تو ان کی صحت پر شک لازم بنتا ہے۔ساس تب تک صحت مند رہتی ہے جب تک ساس رہتی ہے۔
کہتے ہیں حیدرآباد کے نظام اور لکھنو کے نوابین کی کمزوری صنفِ نازک کے بعد بریانی رہی ہے۔اکثر کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مذکور دونوں کے بنا نظاموں کا ’’نظام‘‘اور نوابین کا بھی نظام ’’کمزورکمزور‘‘رہتا تھا۔قرطاسِ تاریخ اس بات کے شاہد ہیںکہ حرم سرا میں صنفِ نازک اور شاہی مطبخ میں بریانی کا’’تعدد‘‘سطوتِ شاہی کی بربادی وتباہی کا باعث بنا۔گویا بریانی ڈش نہ ہوئی ایک وقار،شان،دیوانگی،فرزانگی بلکہ ایک نشہ ہوا۔
نادرا کے معرض وجود میں آنے سے قبل قومی شناختی کارڈ پر شخص کا علامتی نشان تحریر کیا جاتا تھا تاکہ پہچان رہے۔دنیا ترقی کے زینے طے کر چکی ہے لہذا ہم بھی ترقی کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ بریانی ایک سیاسی جماعت کی پہچان بلکہ چھیڑ ہی بن گئی ہے ۔لیکن مختاریاں گل ہن ودھ گئی جے۔اب بات بریانی سے چکن فرائی سے ہوتی ہوئی ہنڈا 125 اور اس سے بھی آگے جہاں اور بھی ہیں،اب تو ایک سابق ایم این اے نے جنت کے سرٹیفیکیٹ کی بشارت بھی فرما دی ہے۔ان کا منشور یہ ہے کہ کارنر میٹنگ ہو کہ کسی کو کارنر لگانا ،جلسہ ہو کہ جلوس،استقبال ہو کہ کسی کا اقبال بلند کرنا’’بریانی‘‘سب کی مشکل کشائی میں ہراول دستہ کا کام سرانجام دیتی ہے۔ان سے اگر پوچھا جائے کہ بریانی یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری آپشن سے قبل ہی جواب موصول ہو جائے گا،’’بریانی‘‘کو لاک کردیا جائے۔بریانی کو چھوڑومن حیث القوم ہمارے دماغ ہی موقوف و ماوف ہوچکے ہیں جو صرف اور صرف تعلیم وتربیت کی کلید سے کھل پائیں گے۔اور یہ تب ممکن ہو پائے گا جب آپشن تعلیم اور بریانی کی ہو، تو پوری قوم دوسری آپشن سے قبل ہی پکار اٹھے کہ پہلی آپشن(تعلیم)کو لاک کردیا جائے۔آخری سطور لکھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ بیگم کی بارعب چنگاڑبلند ہوئی’’بریانی تیار ہے گرم گرم کھا لیں پھر نہیں ملے گی‘‘۔اب آپ ہی بتائیں کہ کیا کروں؟پہلی آپشن کو لاک تو کرنا پڑے گا کہ کال’’ مرشد بیگم ‘‘کی ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button