پھول بیچتے پھول سے بچے

منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے لوگ کبھی نہیں جان سکتے کہ ایک غریب شخص زندگی کس طرح گزارتا ہے، جاوید چوہدری کے بقول آپ اے سی والی گاڑی میں بیٹھ کر باہر کی گرمی کا اندازہ کر ہی نہیں سکتے ۔اس عمل سے گزرنے کیلئے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پڑتا ہے۔ اس گرمی کو محسوس کرنا پڑتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں اب لوگوں کے ملنے کا معیار عہدے ، امارت اوراسٹیٹس ہی رہ گیا ہے۔یہ اسٹیٹس کیا ہے ؟ میری ایک سہیلی بڑے عہدے پر ہے یا اس کا شوہربھی ایک اچھی جاب کرتا ہے ؟ وہ ہر سال اپنا ڈرائنگ روم نئے انداز سے سیٹ کرتی ہے یا اس کا بچہ ایل جی ایس جے ٹی برانچ میں پڑھتا ہے تم نے سنا اس نے ابھی نئی لینڈ کروزر لی ہے واہ۔یا پھر کوئی شخص جو سب سے نمایاں اور اونچا نظر آتا ہے کسی بڑی پوسٹ کی وجہ سے یا انگریزی بولتا ہے ۔ہمارے ہاں جو انگریزی بولتا ہے اسے فوری بڑا آدمی مان لیا جاتا ہے میں انگریزی نہیں بول سکتی تو میں کافی تواس صورت میں مجھے اس اسٹینڈرڈسے بہت نیچے تصورکیاجاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ان افراد کے روبرو انگریزی میں بات کرتے ہیں جواس زبان سے نابلد ہیں لیکن یہ محض شوآف کرنے یا دھاک بٹھانے کیلئے کیاجاتا ہے۔
ٹرینڈ بنتا جارہا کہ جھوٹ بولنا ہے میں نے برانڈڈ کپڑے نہیں پہنے یا میں رکشے میں آئی ہوں تو مجھے جھوٹ بولنا چاہیے کہ آج میری گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ ورکشاپ گئی ہوئی ہے کامیاب اور امیر شخص سے ہر کوئی بات کرنا پسند کرتا ہے اور دوستی بھی کرنا چاہتا ہے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ یہ جو مشہور آدمی ہے یہ میرا دوست ہے اسکے اتنے فالوورز ہیں۔ہر امیر آدمی کے ساتھ آپ کو ایسے بہت سے خوش آمدی نظر آئیں گے جن کا اپنا کوئی فائدہ نہیں ہو گا لیکن وہ اس رشتے دار کی شو ضرور ماریں گے آپ کو پتا ہے ان کے پاس بہت پیسہ ہے ابھی پچھلے مہینے میری دوست کو اس کے ہسبینڈ نے ڈائمنڈ کا سیٹ لے کر دیا ہے اب بندہ پوچھے اس کی دولت سے آپ کو کیا فائدہ ہے ؟بس بھیڑ چال ہے اور کچھ نہیں۔ پنجاب میں یہ رواج کچھ زیادہ ہے اس کی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہو سکتی ہے یا پھر رواج بھی ہوسکتا ہے۔یہاں کے زیادہ تر لوگ اپنی نام نہاد دولت کی ڈینگیں مارتے نظر آتے ہیں میرے دادا کی بڑی جائیداد تھی۔ بس اس پر کیس چل رہا، ہم نے بڑی مہنگی گاڑی بک کروائی ہوئی ہے ۔ بس جلد ہی آ رہی ہے میں تو بہت ہائی سٹینڈرڈ کے ہوٹل میںپر کھانا کھاتی ہوں۔ میں تو کہیں جائوں تو کسی کو سستا گفٹ دے ہی نہیں سکتی۔
جھوٹ اور ریاکاری معاشرے کا حصہ بنتی جا رہی جس سے باقی افراد کا جینا مشکل ہو گیا ۔ایک شخص آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع میں اتنا ہلکان ہو جاتا کہ اس کے بعد پورا مہینہ اس کے بچے دال کھاتے ہیں اور دوسرا سوچ رہا ہوتا اب یہ آئیں گے تو مجھے بھی اتنے ہی انواع اقسام کے کھانے بنانے پڑیں گے ۔موجودہ پنجاب میں ایک گھر میں چودہ بندے رہتے ہیں اور صرف ایک شخص کماتا ہے اور باقی اس کی کمائی کی شو مارتے یاشورمچاتے نظر آتے ہیں ۔اگراوور سیز کی بات کی جائے تو وہ بیچارے بس پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں جبکہ یہاں بیٹھے گھر والے ان کے پیسے پر اپنے گھر بنا تے اوراپنی عیش وعشرت پروہ پیسہ اجاڑتے اور ان کی بیویاں ساس سے خرچہ مانگ کر گزارا کرتی ہیں۔کراچی میں اس کے برعکس لوگوں کا طرززندگی بہت مختلف ہے وہاں ہر شخص بی اے بی ایڈ ایم ایڈ ایم فل پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرتا ہے اور اچھی نوکری پر لگا نظر آتا ہے ۔لڑکے لڑکیاں اپنے ذاتی فلیٹ بک کرواتے ہیں۔کالج اسکول جانے کیلئے خواتین اپنے وسائل خود استعمال کرتی ہیں، وہ خودمختار ہیں اور ان کے والد بھائی یا خاوند انہیں منزل تک پہنچانے کا کام نہیں کرتے ۔ترقی کے اس سفر میں اگر آپ خودمختار ہونا چاہتے ہیں تو ہمت کریں اور سادگی کو اپنائیں کیونکہ ہماری نمودونمائش کی عادت ہمیں ہماری خواہشات کے چنگل سے باہر نکال ہی نہیں پاتی ۔
کچھ عرصہ پہلے میرا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا تھا جو منہ میںسونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی نظر میں غریب آدمی ایک فالتو شے ہوتی ہے ۔ کوئی جا رہا یاآ رہا،انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پیسہ ،گاڑیاں، دولت کی ریل پیل آپ کو بھلا دیتی کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ میرے بھی جب مالی حالات خراب ہوئے تو میں باہر نکلی اور مجھے عام لوگوں سے ملنے کا موقع ملا اور انہیں جانا کہ یہ بھی لوگ ہیں۔ انہی دنوں مجھے ایک ادارے اردو پوائنٹ میں کام کرنے کا موقع ملا اور ان کے توسط سے میں غریب اور معزور لوگوں کو ملنا شروع ہوئی تب احساس ہوا کہ زندگی تو یہ ہے۔
مجھے احساس ہوا کہ اگر آپ اپنے دل کو مردہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو یتیم کے سر پر ہاتھ رکھیں معزور کے ساتھ وقت گزاریں اور نمودونمائش سے باہر نکلیں صرف ٹی بیگ والی چائے زندگی نہیں ہے ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈھابے کی چائے نے میری زندگی کو بہت خوبصورت بنا دیا ۔جب میں نے وائس سوسائٹی جو ایک معزور بچوں کا ادارہ ہے ،وہاں وقت گزارنا شروع کیا تو میں نے جانا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے ۔اس ادارے کے تمام ڈائریکٹرز بھی معزور تھے اور کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے سوچا کہ بیک ورڈ ایریا سے یتیم اور معزور بچوں کو لا کر انہیں ایک نئی اور کامیاب زندگی دی جائے وہاں ان افراد کو ہی جاب کا موقع دیا جاتا جو معزور ہونے کی وجہ سے بیروزگار ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا کسی بھی شخص کیلئے صدقہ جاریہ ہو سکتا ۔ان کیلئے کھانا ، کیک ، ٹافیاں لے جانا ،ان کے ساتھ مختلف گیمز کھیلنا ،اپناجنم دن اس ادارے کے بچوں کے ساتھ منانا ایک منفرداحساس ہے جو انہیں یہ باو ر کروا سکتا کہ وہ بھی معاشرے میں مقام رکھتے ہیں ۔جو خوشی ان کے ساتھ سالگرہ منا کر حاصل کی جا سکتی وہ مہنگا ترین فنکشن کر کے بھی حاصل نہیں ہوتی۔سگنل پر کھڑے پھول سے بچے جو پھول بیچتے ہیں وہ بھی اس کی ایک بہترین مثال ہیں وہ آپ سے کچھ نہیں مانگتے،انہیں بس ایک محبت بھری مسکراہٹ دے کر دیکھیں آپ کی زندگی سفل ہو جائے گی۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button