"کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے” تحریر:- اصغر علی جاوید

ملک میں نافذ ہونے والی معاشی پالیسیوں،پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کے بعد نہ صرف ملک میں مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والا طوفان برپا ہوچکا ہے بلکہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی عوام کسی مسیحا کی منتظر ہے
گزشتہ ماہ بجلی کے کمرشل بلوں میں فائلر کے لئے 3000 ماہانہ اور نان فائلر کے بل میں 6 ہزار ماہانہ فکس ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جوکہ ہر چھوٹے بڑے دوکاندار کے کمرشل بلوں پر یکساں لاگو ہوچکا ہے
جس بندے کی کسی گلی محلے یا گاوں میں دوکان پر روزانہ بمشکل 6000سے 8000 روپے تک سیل ہوتی ہے اور وہ بیچارہ بڑی مشکل سے ایک ہزار بچا کر گھر لے جاتا ہے اور وہ نان فائلر بھی ہے جب 6 ہزار روپے فکس ٹیکس علاوہ بجلی کی قیمت،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ٹیکسز سمیت اسے ہوشربا بل ادا کرنا پڑے گا تو وہ کیا کرے گا کبھی اسکا بھی حکومت کو سوچنا چاہیئے صرف آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے لئے اپنے غریب اور متوسط طبقے کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کردینے والی موجودہ حکومتی پالیسیاں عوام میں انکے خلاف شدید نفرت اور انتشار کا باعث بن رہی ہے لوگ ان بلوں اور ٹیکسوں کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے ہیں ملک کی اشرافیہ کو ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ان پر حکومت جو بھی ٹیکس عائد کرتی ہے وہ نیچے غریب اور محنت کش طبقہ میں ہی تقسیم ہوجاتا ہے یہی متوسط اور غریب طبقہ ان اشرافیہ کی غلامی کرکے انہیں مسند اقتدار تک پہنچاتا ہے اور پھر وہ جو اس غریب اور متوسط طبقے کا حشر کرتے ہیں وہ سب کے سامنے عیاں ہے
آخر یہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے یہ حکمران اور انکی سپانسر اشرافیہ اس طبقے کو کس کھائی میں لے کر جاریے ہیں کیا انہیں انکی تکالیف اور ذہنی اذیتوں کا ذرا برابر بھی احساس نہیں اور وہ اس عوام سے کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں
اگر ان حکمرانوں اور اشرافیہ کو اس ملک سے ذرا سی بھی محبت ہو اور وہ اسے اپنا ملک سمجھتے ہوں تو فوری طور پر اپنی اپنی دولت خواہ بیرون ملک بنکوں میں ہے یا انکے گھروں کے اندر تجوریوں میں بند پڑی ہے اسکا صرف 20 فیصد قومی خزانے میں جمع کروا دیں یا پھر اپنی یہ ساری دولت پاکستانی بنکوں میں ہی اپنے اکاونٹس میں جمع کروا دیں تو شاید دنیا کے سب سے بڑے معاشی دہشت گرد آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں اور انکے اس عمل کے بعد انہیں عوام میں جو مقبولیت ملے گی وہ ناقابل یقین ہوگی کاش یہ طبقہ ملک سے مخلص ہوجائے خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو تو پاکستان واقعی ایشیئن ٹائگر بن سکتا ہے
لیکن یہاں تو ایسے لگ رہا ہے کہ یہ طبقہ صرف اور صرف غریب اور متوسط طبقہ کی قربانی دے کر اپنی جائیدادوں اور بنک بیلنس میں اضافہ کرنا چاہتا ہے
ملک اس وقت بے حسی کے اس شرمناک دور سے گزر رہا ہے جس میں خوف خدا نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی
لیکن وہ دن زیادہ دور نہیں رہے جب انکی بے حسی کا شکار ہونے والا یہ طبقہ انکے خلاف عملی طور پر اٹھ کھڑا ہوگا اور پھر کیا ہوگا اس بے حس طبقے کا گریبان ہوگا اور غریب و متوسط طبقے کا ہاتھ ہوگا پھر انکے پاس نہ عزت بچے گی نہ مال و دولت بلکہ یہ اپنی جان کی امان پانے کے لئے انکے پاوں پڑیں گے اس سے پہلے کہ یہ انقلاب آجائے ابھی بھی وقت ہے عوام کا معاشی قتل بند کردیا جائے اور ان کے منہ سے دو وقت کی روٹی نہ چھینی جائے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button