کریمہ!آخری سلام قبول کیجیے۔۔۔ تحریر: محمد خان دائود

بانک کریمہ!
آخری سلام قبول کیجیے،ان آنسوؤں کا جو بلوچ مائیں اپنی اداس آنکھوں سے دے رہی ہیں۔ان نینون کا جو ہمیشہ گیلے ہی رہتے ہیں۔کبھی کس دکھ میں کبھی کس دکھ میں اب تو عظیم دکھ میں ہیں جس دکھ کا کوئی پرسان حال نہیں۔سلام قبول کیجیے ان ماؤں کا جو کہاں کہاں سے چلیں اور وہاں آئیں جہاں تم امانتاً دھرتی کو سونپی جانی تھیں۔سلام قبول کیجیے ان پیروں کا جو اپنی بیٹی کے لیے دشت میں چلتے رہے۔بندوق برداروں نے انہیں روکا،ٹوکا ان کا مذاق اُڑایا پر وہ دل کیا وہ تو روح سے دکھی تھیں انہیں وہاں آنا تھا جہاں انہیں معلوم تھا کہ اب اک بیٹی ہی کیا پر صبح وشام مدفون ہونے والے ہیں اک صبح و شام کیا پر دیس کی تمام صبحیں اور تمام شامیں دفن ہونے والی ہیں،وہ ان پیروں سے چلتی رہیں جو سسئی کے پیروں جیسے تھے جنہوں نے بقول لطیف کے ”کشالا!“کاٹے
”محبت ماریو آ معامرے
نہ تہ کیر کشالا کڈھے!!!“
سلام قبول کیجیے ان ہاتھوں کا جو ہاتھ تمہا رے دکھ میں لزرتے رہے۔پھر بھی تمہا ری تصویر تھامے رہے دنیا سمجھتی ہے کہ دل دکھی ہو تے ہیں پر اب کی بار تو بلوچ بہنوں،ماؤں اور بیٹیوں کے ہاتھ بھی دکھی تھے
اگر ان ہاتھوں کی زباں ہو تی تو وہ بہت رو تے
اگر ان ہاتھوں کی آنکھیں ہو تے،تو وہ اشک بار ہو تے
بانک کریمہ!سلام قبول کیجیے ان بزرگوں کا جو اپنا دکھی دل لیے لیا ری کے باغ بھیاءِ میں آئے اس لیے کہ وہ تمہیں دیکھیں گے اور بہت روئیں گے،پر تم وہاں نہیں آئیں،بندوق بردار آئے،پھر وہ اپنی دکھی د سے نہیں روئے وہ سراپا چیخ بن گئے۔ان کے ہاتھ اور ہونٹ لرز رہے تھے اور وہ،وہ سب کچھ بول رہے تھے جو وہ عام حالات میں نہیں بولتے،پھر آنکھوں نے دیکھا کس بزرگ کے کوئی بزرگ آنسو پونچھ رہا تھا اور کسی بزرگ کے کوئی بزرگ!
سلام قبول کیجیے ان دلوں کا جو تمپ تک جو نہیں جا سکے پر وہ کراچی میں بہت ملول رہے
سلام قبو ل کیجیے ان انسانوں کا جو تمہیں اپنی دل میں سمائے غائیبانا نماز پڑھتے رہے
سلام قبول اس انتظار کا جو کسی سڑک پر بس اس لیے جا ری رہا ہے وہاں سے تم گزروگی اور وہ ملال دل سے اداس اور نم آنکھوں سے تمہیں سلامی پیش کریں گے اور پھر روتی آنکھیں اور ڈوبتا دل لیے گھر کو لوٹ جائیں گے
پر وہ انتظار طویل سے طویل تر ہوتا گیا ریاست سے روٹ بدل دیا اور وہ منتظر لوگ اپنا منتظر دل اور بھیگی بھیگی منتظر آنکھیں وہی اسی سڑک پر چھوڑے گھروں کو لوٹ آئے
بانک!سلام قبول کیجیے ان لوگوں کا جو کہاں سے چلے اور کہاں تک پونچھے؟
پھر اس سڑک پر دیر تک بیٹھے رہے جہاں سے تم گزریں
روتی آنکھوں سے تمہیں سلامی دی اور کہاں گئے اور کیوں گئے کون جانے؟!!
سلام قبول کیجیے ان انسانوں کا جن کا ایک دوسرے سے بس درد کا رشتہ ہے
ان کو جہاں جہاں موقعہ ملتا ہے وہ اپنی صفیں درست کر کے تمہیں یاد کر لیتے ہیں
بانک کریمہ!سلام قبو ل کیجیے ان بیٹیوں کا جو کہاں کہاں سے چلیں اور وہاں تک پونچھیں جہاں تم پر سرخ گلاب ڈالے جا رہے تھے،وہ بھی اپنے ہاتھوں میں سرخ گلاب اور آنکھوں میں آنسو لائی تھیں جنہیں ریاست سے سیدھے راستے سے آنے بھی نہ دیا وہ اپنی سسئی کے لیے اس راستے سے آئیں جہاں سے سندھ کی سسئی اپنے پنہوں کو تلاشتی پونچھی تھیں،بلوچستان کی سسئی جیسی بانک کریمہ!بلوچستان کی سیکڑوں سسیوں کا سلام قبول کیجیے!

ان چار عظیم مریموں کا سلام قبول کیجیے جنہوں نے اپنے ناز ک کاندھوں پر بار صلیب اُٹھایا ہوا تھا
جس میں یروشلم کا مسیح مصلوب نہ تھا
پر جس میں بلوچستان کی باغی بیٹی کریمہ کی سرد لاش تھی اور وہ چار مریمیں اس بھا ری صلیب کو اپنے اندھوں پر لیے جا رہی تھیں
بانک کریمہ!سلام قبول کیجیے ان پتھروں کا جو آپ کے درد میں نرم پڑ گئے ہیں
سلام قبول کیجیے ان پہاڑوں کا جن کے اوبچے سر جھکے ہوئے ہیں
سلام قبول کیجیے ان پھولوں کا جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر شہیدوں کے لہو سے آپ ہی اُگ آتے ہیں
سلام قبول کیجیے ان ماؤں کا جو حمل سے ہیں اور وہ دعا کر رہی ہیں کہ ان کے ہاں بیٹی کا جنم ہو اور وہ اس بیٹی کو بلوچستان کی عظیم بیٹی کا نام دیں کریمہ!!!
سلام قبو ل کیجیے ان والدین کا جن کے گھروں میں بیٹیوں کا جنم ہوا اور وہ آگے بڑھ کر ان کے گلابی رخساروں کو چوم رہے ہیں اور انہیں کریمہ نام دے رہے ہیں
سلام قبول کیجیے ان شاعروں کا جن سے سب الفاظ بھول گئے ہیں
سلام قبول کیجیے ان دانشوروں کا جو دانش کا در پیٹ رہے ہیں اور ایسے الفاظ کی خیرات مانگ رہے ہیں جس سے وہ تمہا ری مانگ بھر سکیں وہ دانش کا در پیٹ پیٹ کر تھک چکے ہیں پر دانش ان پر مہربان نہیں ہو رہی
سلام قبول کیجیے دیس کے ان معصوم سیدھے انسانوں کا جو کچھ نہیں جانتے
پر وہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ کریمہ بلوچستان تھی!
سلام قبول کیجیے ان ہواؤں کا جو فل وقت نہیں چل رہیں کہ کہیں مبادا وہ دئیا نہ بُجھ جائے جو بانک کے سرہانے جل رہا ہے
سلام قبول کیجیے ان بارشوں کا جو بہت برستی ہیں اور پتھروں میں بھی شگاف ڈال جا تی ہیں
پر فل وقت نہیں بر س رہیں
کیوں کہ وہ قبر نہ ڈھ جائے
اور وہ کتبہ نہ گر جائے
جس پر لکھا ہے
بانک!کریمہ بلوچ۔!!!!!!
بانک کریمہ!بارشوں سے لیکر ہواؤں تک،چاند سے لیکر بادلوں تک،خوشبوؤں سے لیکر دعاؤں تک سب کا سلام قبول کیجیے تم جانے کے لیے نہیں تم امر ہونے کے لیے آئی تھیں
تمہیں یہ امرتا مبارک ہو۔
میری ماں جیسی بہن
میری بہن جیسی ماں!!!

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button