رشتوں کی قدر کیجئے۔۔۔ تحریر: اریشہ صغیر عباسی

آج ہمارے پاس بہت سارے رشتے ہوتے ہیں کچھ روحانی اور کچھ جسمانی مثلا کچھ کا تعلق جسم سے ہوتا ہے یعنی کہ والدین بھائ بہن وغیرہ اور کچھ کا تعلق ہماری روح سے ہوتا ہے ہمارے دل سے ہوتا ہے اور اس کٹیگری میں آتے ہیں ہمارے مشفق اور مہربان اساتذہ کرام اور عزیز از جان دوست و احباب۔ہمارے پاس رشتوں کا بھنڈار ہوتا ہے پیار کرنے والے لوگ ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں ان کا مقام نہیں دیتے انہیں عزت نہیں دیتے اور رونا روتے ہیں کہ ہمارا ہے ہی کون جس کے پاس ہم اپنا دکھڑا روئيں ؟؟؟؟ہماری زندگی میں ہمارے آس پاس بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہماری توجہ کی ضرورت ہوتی ہی کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو صرف ہماری ایک جھلک دیکھنے کے لئے ہم سے دو بول سننے کے لئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں لیکن ہم خود میں اتنے مگن اور محو ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے سے جڑے ہوئےرشتے کا احساس تک نہیں رہتا ۔

دراصل ہمیں انکی محبت اور توجہ ہماری بے رخی کے بعد بھی مسلسل ملتی رہتی وہ کبھی ہمیں خود سے الگ نہیں ہونے دیتے اس لئے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم دوسروں سے کس قدر بیگانہ ہو گۓ ہیں ہم ان کی قدر نہیں کرتے ہم انہیں پیار نہیں دیتے انہیں وہ عزت نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں اور جس دن ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جو پیار ہمیں وہ دے رہا اسے بھی تو اس کی ضرورت ہوگی تب تک بہت دیر ہو چکی رہتی یے وہ ہم سے دور جا چکا رہتا ہے ہمیں چھوڑ چکا رہتا ہے تب جا کر ہمارے دل کو پتہ لگتا ہے کہ انکا ہونا کیا تھا اور اب انکا نہ ہونا کیا ہے ۔قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جاۓ ہمارے اپنے ہم سے روٹھ جائیں اور رخ پھیر لیں ہمیں انکی قدر کرنی ہوگی انہیں وہ تمام مقام اور حقوق دینے ہونگے جسکے وہ مستحق ہیں خواہ وہ ہمارے والدین ہوں یا استاذ ہ اور دوست ہمیں اس وقت انکی قدر کرنی ہے اس وقت انہیں عزت دینی ہےجبکہ انہیں ضرورت ہے انکی زندگی میں ہی انہیں تمام پیار دینا ہے کیونکہ انکے گزرنے کے بعد پچھتاوے اور آنسو کےسوا کچھ نہیں بچتا ۔جس دنیا میں ہم سانس لیتے ہیں وہاں کے بے رحم اور مطلب پرست لوگ کا یہی دستور ہے کہ زندگی میں اپنے رشتوں سے دور بھاگتے ہیں ان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور جب وہ فوت ہو جاتے ہیں تو انکی شان میں قصیدے لکھتے ہیں ۔ ہمیں ان جیسا نہیں بننا کہ انکی زندگی میں ان سے دور رہیں وہ ہماری ایک جھلک کے لۓ تڑپیں اور ہم اپنا مستقبل سنوارنے میں ان سے کوسوں دور بیٹھے رہیں اور جب وہ گزر جائیں تو دو چار لائن لکھ کر خود کو اعليٰ اور برتر سمجھیں بلکہ ہمیں انکی زندگی میں ہی انکی خدمت کر کے سرخ رو ہونا ہے رب العالمین کے دربار میں ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button